Column

پاکستان کے نظامِ انصاف کا امریکی عدالتی اور تفتیشی نظام سے موازنہ

عمر فاروق یوسفزئی
پاکستان کے عدالتی اور تفتیشی نظام کی حالت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ملک کے قیام کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں، مگر انصاف کی فراہمی کا سفر آج بھی مشکلات کا شکار ہے۔ ناقص تفتیش، جھوٹی اور کمزور گواہیاں، اور مقدمات کا بوجھ عدالتوں پر اس قدر زیادہ ہے کہ انصاف نہ صرف تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات انصاف کا قتل بھی ہو جاتا ہے۔ مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور بے گناہ سزائیں کاٹتے ہیں۔ اگر پولیس کی تفتیش شفاف اور معیاری ہو تو عدالتیں مقدمات کی بھرمار سے بچ سکتی ہیں اور انصاف تیز تر ہو سکتا ہے۔ پاکستانی پولیس کا تفتیشی نظام جدید سائنسی طریقوں کے بجائے روایتی طریقوں پر چل رہاہے۔ جرم کی تحقیق زیادہ تر پرانے اور فرسودہ طریقوں پر مبنی ہے جس میں زیادہ تر جھوٹے یا کمزور گواہان عدالت میں پیش کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بے گناہ افراد کو سزا ملتی ہے اور حقیقی مجرم بچ نکلتے ہیں۔ ایک اور المیہ ثبوتوں کی غیر سائنسی جمع آوری جیسے کہ فنگر پرنٹس، ڈی این اے، اور دیگر فورنسک شواہد کا استعمال انتہائی کم ہے۔ سوم سنگین مسئلہ، پولیس کی تفتیشی طریقوں میں مبینہ طور پر اکثر تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ملزم سے اعتراف جرم کروایا جا سکے، جو کہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے منافی ہے۔ چہارم، جدید ٹیکنالوجی جیسے سی سی ٹی وی فوٹیج، موبائل ڈیٹا، اور سائبر کرائم کی تفتیش کا استعمال محدود ہے۔ یہ تمام عوامل مجموعی طور پر عدالتوں پر بوجھ بڑھا دیتے ہیں اور انصاف کی فراہمی کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیتے ہیں۔
جب ہم پاکستان کے نظامِ انصاف کا امریکی عدالتی اور تفتیشی نظام سے موازنہ کرتے ہیں تو واضح فرق سامنے آتا ہے۔ امریکہ کا عدالتی نظام دنیا کے بہترین اور منظم عدالتی نظاموں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اور اس میں انصاف کی فراہمی میں تیز رفتاری، سائنسی بنیادوں پر تفتیش، اور گواہیوں کی قانونی حیثیت کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں تفتیش کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ جرم کی جگہ سے فورنسک شواہد جیسے ڈی این اے، فنگر پرنٹس، خون کے نمونے اور دیگر جسمانی ثبوت جمع کیے جاتے ہیں جو جرم کی تفتیش کو مضبوط اور مثر بناتے ہیں۔ امریکی پولیس ڈی این اے ٹیسٹ کا بھرپور استعمال کرتی ہے، جو جرم میں ملوث فرد کی شناخت کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ امریکہ میں سی سی ٹی وی فوٹیج، موبائل فون ڈیٹا، اور دیگر الیکٹرانک ذرائع کو تفتیش میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ جرم کے حقائق کو واضح کیا جا سکے۔ اس کے برعکس، پاکستان میں ڈی این اے اور فورنسک سائنس کا استعمال بہت محدود، اور پولیس کا زیادہ انحصار گواہیوں اور زبانی اعترافات پر ہوتا ہے۔ امریکہ میں جھوٹی گواہی دینا ایک سنگین جرم ہے اور اس کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں۔ جھوٹی گواہی دینے والے افراد کو جیل اور بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان کے خلاف سخت عدالتی کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، بد قسمتی سے پاکستان میں جھوٹی گواہی عام ہے اور اکثر لوگ بغیر کسی خوف کے عدالت میں جھوٹ بول دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ آتی ہے۔ حالانکہ قانون کے مطابق جھوٹی گواہی دینا جرم ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کا فقدان ہے اور سزا دینے کا عمل سست ہے۔
امریکہ میں عدالتی نظام کی تنظیم اس قدر موثر ہے کہ مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لیے کئی سطحوں پر عدالتیں قائم ہیں، ڈسٹرکٹ کورٹ، جہاں مقامی سطح کے مقدمات سنے جاتے ہیں۔ اپیلٹ کورٹس جو اپیلوں پر غور کرتی ہیں۔ سپریم کورٹ اہم آئینی اور قومی مسائل پر فیصلے دیتی ہے۔ عدالتوں کے اس مضبوط ڈھانچے کی وجہ سے امریکی نظام میں مقدمات کا بوجھ کم ہوتا ہے اور فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ بعض اوقات دہائیوں تک فیصلے نہیں ہو پاتے۔ مقدمات کی لمبی تاریخیں اور تاخیر انصاف کے نظام کو کمزور کرتی ہیں اور عوام کا عدالتی نظام سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
امریکی نظام میں عوام کو انصاف تک پہنچنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی ملزم وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو حکومت کی طرف سے اسے پبلک ڈیفینڈر فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکی عدالتی نظام میں جیوری کا کردار اہم ہوتا ہے، جہاں عام شہری مقدمات کی سماعت کرتے ہیں اور فیصلہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں عوام کو عدالتوں تک رسائی حاصل کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مہنگے وکیل، عدالتی فیسیں، اور پیچیدہ قانونی عمل عام لوگوں کے لیے انصاف حاصل کرنا مشکل بنا دیتے ہیں۔
پاکستان میں عدالتی اور تفتیشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات کی ضرورت ہے جس میں پولیس فورنسک سائنس، ڈیجیٹل تفتیش، اور جدید تکنیکوں کی تربیت حاصل کرے تاکہ تفتیش زیادہ موثر اور سائنسی ہو۔ جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور انہیں بھاری سزائیں دی جائیں تاکہ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کم ہوں۔ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے عدالتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور مزید عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ مقدمات تیزی سے نمٹائے جا سکیں۔ جرم کی تفتیش کے دوران فورنسک سائنس اور ڈیجیٹل ثبوت کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ مقدمات میں جھوٹ کی گنجائش نہ رہے۔ پاکستان کے عدالتی اور تفتیشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ امریکہ کے عدالتی نظام سے سیکھ کر پاکستان میں بھی ایسا نظام لایا جا سکتا ہے جہاں انصاف کی فراہمی جلد، شفاف، اور سائنسی بنیادوں پر ہو۔ جب تک جھوٹی گواہی اور ناقص تفتیش کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، عدالتی نظام کی ساکھ بحال نہیں ہو سکے گی۔

جواب دیں

Back to top button