پربت تیرے میں اگر کھائی نہیں ہے

شہر خواب ۔۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
خود پر اعتماد کو انسانی شخصیت کا عظیم سرمایہ کہا جائے تو ہرگز بے جا نہ ہو گا۔ انسان اس دولت کے سہارے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیتا ہے۔ وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ زندہ ہے سو وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اس کے سامنے بکھرے سنگ و خشت کو جہان نہیں کہتے ، بلکہ اس کا جہان وہ ہے جسے وہ خود پیدا کرتا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری خودی اور خود اعتمادی کے گرد گھومتی ہے، کیا خوب کہا انہوں نے
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
گویا ایک ایسا جس آدمی کو فکری آزادی میسر ہو وہ اس پر قناعت نہیں کرتا جو اسے دستیاب ہے ۔ بلکہ وہ تو اس شاہیں کی طرح ہوتا ہے جس کے بارے علامہؒ فرماتے ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے آگے آسماں اور بھی ہیں
گویا وہ پرواز کرتا ہے اور نئے نئے افق ڈھونڈتا ہے۔ اس کی بلند نگاہی و بلند پروازی کے آگے یہ پوری کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ وہ راہ کی مشکلات کو دیکھ کر گھبراتا نہیں مسکراتا ہے۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
وہ مشکلات کو ہی اپنی ہمت میں بدل دیتا ہے۔ وہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنا لیتا ہے ۔ پھر کوئی چیز اس کی راہ کی دیوار نہیں بنتی۔
بشیر بدر کے الفاظ میں
جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
سچ تو یہ ہے کہ منزل ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ وہ ایک قدم جو بہت سے لوگ اٹھا نہیں پاتے اور سوچتے رہ جاتے ہیں ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں۔
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
جب کوئی با اعتماد شخص پہلا قدم اٹھا لیتا ہے تو اس کی منزل گویا ایک قدم اس کے قریب ہو جاتی ہے۔ پھر وہ رکتا نہیں اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے اور جو لوگ پہلا قدم ہی نہیں اٹھا پاتے وہ لڑے بنا ہار جاتے ہیں۔ کوشش کیے بنا ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ اپنے دشمن خود ہوتے ہیں۔ انہیں ہرانا نہیں پڑتا وہ ہارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کھڑے کرنے کے لیے پستول نہیں دکھانا پڑتا۔ وہ لڑ کر ہارنے والے نہیں ہوتے ، ڈر کر ہارنے والے ہوتے ہیں۔
وہ جانتا ہے اس کا پہلا اور بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے، سو وہ اس پر پائوں رکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے راستے کی پہلی دیوار وہ خود ہے۔
شاعر نے سچ ہی تو کہا ہے
میں خود تھا اپنی ذات کے پیچھے پڑا ہوا
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا
خودی اور خود اعتمادی عرفان ذات کا نام ہے ۔ اپنی ذات سے پیار کا نام۔ انسان کے وقار کا نام ہے۔ سر سید اسے انا کے معنوں میں لیتے ہیں۔ وہ خودی کے بارے لکھتے ہیں کہ’’ خودی جو انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے ‘‘۔ اقبالؒ نے اسے انا کے معنوں میں نہیں لیا اور اس کے معنی میں معنویت کا ایک جہان آباد کر دیا ہے ۔ اس کی گہرائی و گیرائی میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ۔
خودی اور خود اعتمادی کا حامل انسان کہتا ہے کہ ’’ میں بھی ہوں ‘‘ وہ کسی انا پرست متکبر کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ’’ میں ہی ہوں ‘‘ خودی انسان کی اپنی ذات سے مسنون محبت کا نام ہے جب کہ انا عشق ممنوع کو کہتے ہیں۔ خودی انسان کو احترام ذات تو سکھاتی ہے مگر اسے دوسروں کی ذات کی کا درس نہیں دیتی۔ یہ گنجائش پیدا کرتی ہے، کشادگی عطا کرتی ہے ۔ انسان کی خودی سچائی اور ادراک حقیقت کا پیمانہ ضرور پائی ہے۔ انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک بات اسے ناگوار لگتی ہے تو دوسرے کو بھی تو بری لگتی ہو گی اور جو بات اسے خوش کرتی ہے ، وہ دوسرے کے لیے بھی خوشی کا سبب ہوتی ہو گی۔ یہ احترام آدمیت انسان کا وقار بڑھاتا ہے ۔ انسان کو خودسازی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔
کبھی لکھا تھا ’’ جو خود سازی نہیں کرتے ، وہ خود سوزی کرتے ہیں ‘‘۔
خودی انسان کو خود دار بناتی ہے ۔ اسے توازن عطا کرتی ہے۔ حتی کہ محبت کے معاملے میں بھی اسے شدت پسند نہیں ہونے دیتی ۔ اس کو خود احتسابی کی طرف مائل کرتی ہے ۔ خود احتسابی اسے دوسروں کی بجائے اپنی طرف دیکھنے کی راہ سجھاتی ہے ۔ وہ پہلے خود کو سنوارتا پھر دوسروں کی طرف دیکھتا ہے۔ اس کی خود احتسابی اسے خاموشی کا وقار عطا کرتی ہے
بے زبانی بخش دی ، خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سل جاتی ہیں دنیا کو گلہ دیتے ہوئے
خود انحصاری خودی کا لازمہ ہے۔ انسان دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے ان کا ہاتھ تھامنے لگتا ہے۔ وہ بوجھ بننے کی بجائے بوجھ اٹھانے والا بنتا ہے، بوجھ بانٹنے والا ، معاون و مددگار۔ ہاتھ جھٹکنے والا نہیں ہاتھ پکڑنے والا بناتی ہے ۔ خود انحصاری ہی انسان کی عظمت کی عکاس ہے۔ انسان جہاں ہے وہاں اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کمر ہمت کستا ہے اور کامیابی کی طرف بڑھتا ہے، اس کا ضمیر اسے سوچنے اور سوچتے رہنا والا نہیں بناتا، اسے کہتا ہے
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
وہ کوشش کو اپنا ہتھیار، صبر کو اپنی ڈھال، شکر کو اپنا شعار، دعا کو اپنا مددگار بناتا ہے اور کامیابی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا چلا جاتا ہے، وہ اپنے وسائل، اپنی طاقت، اپنی ہمت اور اپنی استطاعت سے اپنے مسائل پر قابو پاتا ہے۔ وہ ادھار نہیں لیتا ، کسی کا احسان نہیں لیتا ، کسی کی راہ کھوٹی نہیں کرتا ، کسی کے راستے میں روڑے نہیں اٹکاتا سو اسے دھکا لگتا ہے نہ وہ دھوکا کھاتا ہے۔ نہ ٹھوکر کھا کر گرتا ہے۔
قرض ملنے کی امید اسے خوش نہیں کرتی نہ اپنے اثاثے بیچنا اسے مطمئن کرتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کامیابی اپنے زور بازو سے ملتی ہے ۔ فلاح کے لیے اپنا کندھا آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ وہ جانتا ہے کامیابی مسلسل محنت کا دوسرا نام ہے۔ یہ ان تھک محنت کا ثمرہ ہوتی ہے۔
قصہ کوتاہ وہ جانتا ہے
وہی جوان کا قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری
خودی اور خود احتسابی سے چلنے والا سفر خود سازی سے ہوتا ہوا خود انحصاری پر بھی ختم نہیں ہوتا ۔ یہ منزل نہیں راستہ ہے۔ اور یہ راستہ فلاح کی طرف جاتا ہے ۔ اسے فوز عظیما عطا کرتا ہے۔ فلاح کا یہ راستہ ایک فرد کے لیے بھی یہی ہے اور ایک قوم کے لیے بھی، یہی راستہ اسے عظمت کا کوہ گراں بنا دیا کرتا ہے، میرے دوست اور پسندیدہ احتشام حسن نے کیا اچھا کہا ہے:
پربت تیرے پہلو میں اگر کھائی نہیں ہے
کائے کی بلندی جہاں گہرائی نہیں ہے





