Columnمحمد مبشر انوار

ترامیم کا مستقبل

محمد مبشر انوار
دنیا بھر میں اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور حکومتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ عوام الناس کو اقتدار میں شرکت کا احساس ہو سکے، عوامی اعتماد حکومتوں کو میسر رہے اور حکومتیں عوامی جذبات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی قانون سازی کریں جس سے معاشرے میں احساس تحفظ پنپے، مساوات کا احساس ہو اور امور حکومت بہتر طریقے سے سرانجام دئیے جا سکیں۔ اس مشق میں بتدریج آمریت کا راستہ روکا جاتا ہے، آمریت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور عوامی حمایت سیاسی قائدین کے حق میں ہموار ہوتی ہے بدقسمتی سے یہ راستہ وہ سیاسی قیادت اختیار کرتی ہے، جس کے پاس عوامی حمایت موجود ہوتی ہے وگرنہ عوامی حمایت سے محروم سیاسی قیادت کا رویہ بذات خود کسی آمر سے کم نہیں ہوتا اور ان کی کوشش یہی دکھائی دیتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح نہ صرف عوام کو شرکت اقتدار کے احساس سے بھی محروم رکھا جائے اور ان کے حقوق پر دن دیہاڑے ڈاکہ ڈال کر، انہیں حقوق سے محروم رکھا جائے۔ دور جدید میں کسی بھی ریاست کو چلانے کے لئے ایک ضابطہ تحریر کیا جاتا ہے، جس میں ریاستی امور سرانجام دینے کے لئے طریقہ کار بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں، عوام کے حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے اور اس دستاویز کو ریاست میں مقدس ترین مقام حاصل ہوتا ہے کہ جس کے پابند ریاست کے باقی تمام ادارے و محکمے ہوتے ہیں۔ اس ضابطہ کو لمحہ موجود میں آئین کہا جاتا ہے تاہم اس آئین کے تمام تر تقدس کے باوجود، مقننہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ حالات کے مطابق اس آئین میں ترامیم کی جا سکتی ہیں تا کہ دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ریاست اور شہریوں کو قانون کا پابند بنایا جا سکے لیکن اس قانون سازی میں ہمیشہ یہ نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل رہتا ہے کہ کسی بھی طرح کی قانون سازی ہو، وہ بنیادی جیورس پروڈنس کی حدوں سے باہر نہ نکل سکے بصورت دیگر عدالت عظمیٰ کے پاس یہ اختیار رہتا ہے کہ ایسی کسی بھی قانون سازی کو مکمل طور پر کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ ایسی مشق سازی کرتی حکومتوں کے متعلق بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ خوفزدہ گروہ، جسے اتفاقا یا شو مئی قسمت، مروجہ و مسلمہ نظام کے برعکس اقتدار نصیب ہوا ہے، عوام میں جڑیں نہیں رکھتے لیکن ہوس اقتدار اس قدر ہے کہ اس میسر اقتدار کو دوام دینے کے خاطر، کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں وگرنہ عوامی حمایت سے معرض وجود میں آنے والی کوئی حکومت، عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے متعلق سوچتی ہے جبکہ یہ حکومت موجود سہولیات کو بھی چھیننے پر تلی ہے۔
ریاست پاکستان میں اقتدار کی ہوس رکھنے والے آج کل مسلسل قانون سازی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کسی طرح معاملات کو اپنے قابو میں رکھ سکیں، لیکن بدقسمتی سے طریقہ کار کے متعلق ان کی سوچ اس قدر پراگندہ ہے کہ ایک ایک قدم سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ قانون سازی کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ سرعت و عجلت میں بنائے گئے قوانین کماحقہ قانون سازی کے معیار پر اترتے بھی ہیں یا نہیں، قانون سازی کرنے والوں کو اس قطعا کوئی غرض نہیں کہ لمحہ موجود میں اہم ترین ضرورت صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ وقت ایسے گزارا جائے کہ تخت و تاج کو درپیش خطرات کا مکو ٹھپ دیا جائے، کل کلاں کیا ہوتا ہے، اس کے متعلق انہیں چنداں فکر نہیں۔ پاکستانیوں کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ کرہ ارض پر دیگر ریاستیں، اپنی سمت کا تعین کرکے، اپنے بھرپور وسائل کے ساتھ، اپنی طے کردہ اہداف کی جانب گامزن ہیں اور ان چیلنجز سے نبردآزما ہیں کہ جو دیگر ریاستوں کی طرف سے انہیں درپیش ہیں تو دوسری طرف اپنی ریاست کے اندر ہی شہریوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت اس سے بخوبی واقف ہے کہ ان کا اقتدار قطعا عوامی حمایت سے نہیں بنا اور نہ ہی عوام انہیں اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے، جو دھاندلی انتخابات میں کی گئی ہے، جس طرح الیکشن کمیشن نے سہولت کاری کی اور تاحال یہ سہولت کاری جاری ہے، اس کی حد اسی وقت تک ممکن ہے جب تک عدالت عظمیٰ اس کو نہیں روکتی۔ جب کہ عدالت عظمیٰ میں ہونے والی کارروائیاں سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح حکومت مخالف معاملات میں فیصلے سامنے آ رہے ہیں اور آئینی خلاف ورزیوں کے باوجود، حکومت کو تاحال کسی قانونی کارروائی کا خطرہ نہیں جبکہ دوسری طرف ایسے فیصلے، جو حکومت کے لئے خطرہ ہیں، ان پر الیکشن کمیشن، سپیکر قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کس طرح رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے، وہ سب بھی عیاں ہے، جس کا واحد مقصد صرف اور صرف اپنے اقتدار کو دوام دینا ہے۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ ہنوز الیکشن کمیشن کے ہٹ دھرمی کے باعث عملدرآمد سی قاصر ہے کہ فیصلہ سامنے آئے بھی ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا لیکن الیکشن کمیشن، سپیکر قومی اسمبلی کے خط کو جواز بنا کر عدالت عظمیٰ سے رہنمائی کے نام پر وضاحتیں طلب کرتا دکھائی دیتا ہے تا کہ وقت حاصل کیا جا سکے۔دوسری طرف اس ہنگام میں بدنام ترین آئینی ترامیم کی منظوری کا عمل مکمل ہو چکا ہے، جس میں تحریک انصاف کے مطابق سترہ نشستوں والی حکومت نے ایوان نے دو تہائی اکثریت ثابت کرتے ہوئے، آئینی ترامیم منظور کروا لی ہیں۔ ان ترامیم کی منظوری کے بعد، ازراہ تفنن، نجانے کیوں یہ خیال دل میں آتا ہے کہ جب اقتدار اس قدر عزیز ہی تو پھر جنرل ضیاء کے ریفرنڈم طرز پر اپنی حکومت کو تاحیات منظور کروا کے، اس انتخابی مشق کی ڈرامے بازی سے عوام کی جان چھڑائیں، کیوں اس قدر وسائل ضائع کئے جاتے ہیں، جس کی ایک کوشش 1997ء کے اقتدار میں کی گئی تھی لیکن پاداش میں تقریبا دس سال ملک بدر کئے کئے تھے۔ بہرکیف اس آئینی ترمیم کے لئے جس طرح حمایت حاصل کی گئی ہے، وہ سب جانتے ہیں لیکن آئینی ترمیم کو اس حد تک طول دینے میں مولانا فضل الرحمن کے کردار کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی کہ مولانا کی سیاسی فہم و فراست کے باعث ہی یہ ممکن ہو سکا ہے کہ منظور شدہ آئینی ترمیم سے بہت سی شقیں ختم کروائی گئی ہیں وگرنہ آئین کا حلیہ بالکل ہی بدل جاتا ہے۔ مولانا کے متعلق بہت سے احباب آج بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کے نزدیک، یہ سب سوچی سمجھی کارروائی ہے کہ مولانا ہمیشہ سے سٹیٹس کو کا حصہ رہے ہیں اور آج بھی بیک وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہوئے، اپنے مقاصد حاصل کر گئے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایک طرف انقلاب کے داعیوں کی صف میں ایسے نگینے تھے جنہوں نے اپنا انقلاب بیچ دیا تھا تو دوسری طرف ایسے جانباز بھی تھے کہ جنہوں نے اپنا بہت کچھ اس انقلاب/تبدیلی کی خاطر گنوا دیا لیکن کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اس صورت حال میں مولانا کو جب تک یہ یقین و اعتماد رہا کہ تبدیلی کے داعی اپنی صفوں میں متحد ہیں، مولانا کا رویہ انتہائی سخت رہا لیکن جب مولانا کو باور کروادیا گیا کہ آئینی ترامیم مولانا کے بغیر بھی ممکن ہے، تب مولانا نے ترامیم میں تبدیلیوں /شرائط کے ساتھ اپنی حمایت حکومت کو فراہم کی۔ تاہم نئے چیف جسٹس کی تقرری کے حوالے سے مولانا اپنی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ عین وقت پر حکومتی عددی برتری کے باعث، مولانا کو پسپائی اختیار کرنا پڑی وگرنہ موجودہ آئینی ترامیم میں مولانا کا رویہ، ماضی کے برعکس، حقیقتا ایک عوامی جمہوری و سیاسی، آئین پسند رہنما کا رہا ہے۔ موجودہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر حکومتی بد نیتی کے علاوہ حکومت کو خوف واضح ہو چکا ہے کہ عوامی حمایت سے محروم حکومت اپنے جرائم کو تحفظ دینے کے لئے بروئے کار ہے، اسے نہ ریاست پاکستان کے مفادات سے کوئی غرض ہے او ر نہ اس کے شہریوں کے مفادات سے کوئی غرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں موجودہ آئینی ترامیم پر جو رپورٹنگ ہوئی ہے، اس میں ریاست کے تیسرے ستون عدلیہ کے پر کاٹ دئیے گئے ہیں جس کے بعد ملک میں انصاف نامی عنصر عنقا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن، جسے آئینی ادارہ کہا جاتا ہے، اس کے متعلق حکومتی رویہ مختلف ہے جب کہ عدالت عظمیٰ و اعلیٰ جیسے بنیادی آئینی ادارے کے خلاف ایسی مذموم کارروائیاں اور اس کے دائرہ اختیار پر قدغنوں سے کوئی ایک بھی حکومتی عہدیدار واقف نہیں کہ جس ادارے سے معاشرے میں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ بہرکیف آئینی ترامیم اب دستور کا حصہ بن چکی ہیں لیکن کیا یہ آئینی ترامیم قائم رہ سکیں گی؟ سب سے پہلے تو ان کو عدالت عظمیٰ میں ہی چیلنج کیا جائیگا لیکن اس کے لئے موجودہ چیف جسٹس کے گھر جانے کا انتظار ہے، یا دوسری صورت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر کبھی کوئی سیاسی جماعت دو تہائی اکثریت حاصل کر کے، اسمبلی میں پہنچتی ہے تو ایک اور آئینی ترمیم کرکے، عدلیہ کی آزادی کو بحال کرے جبکہ تیسری صورت یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے بعد عدالت عظمی ازخود اندرونی طور پر ان ترامیم کا جائزہ لے کر کوئی لائحہ عمل تیار کرے۔ آخری صورت یہی ہے کہ تحریک انصاف اور وکلاء ان آئینی ترامیم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرے اور ان آئینی ترامیم کو ختم کروائے، لیکن تب تک ممکنہ طور پر حکومت اپنے اہداف حاصل کر چکی ہو گی، بظاہر اس آئینی ترمیم کا یہی مستقبل دکھائی دیتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button