ColumnImtiaz Aasi

علی امین کا نیا اعلان

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
حالات اور واقعات سے پتہ چلتا ہے پی ٹی آئی رہنمائوں کے درمیان کچھ نہ کچھ عدم اتفاق پایا جاتا ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں البتہ ایک بات واضح ہے عمران خان سے پی ٹی آئی رہنمائوں کی ملاقات میں تعطل اور بعض ارکان کی حکومت سے مبینہ طور پر ملی بھگت نے آئینی ترامیم کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عمران خان سے پی ٹی آئی رہنمائوں کی ملاقاتوں کو تسلسل توڑنے کے لئے پہلے شنگھائی کانفرنس کی آڑ میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی ملاقات پر پابندی عائد کی گئی حالانکہ کانفرنس کا انعقاد وفاقی دارالحکومت میں ہونا تھا نہ کہ راولپنڈی میں۔ چلیں مان لیتے ہیں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی، سوال ہے اب کون سے سیکیورٹی خدشات ہیں جن کی بنا قیدیوں اور حوالاتیوں کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ حکومت بڑی سیانی ہے عمران خان پر ملاقات پر پابندی عائد کرتی تو پی ٹی آئی والے عدالتوں میں چلے جاتے۔ قیدی اور حوالاتی تو عدالتوں میں جانے سے قاصر ہیں کوئی عدالت گیا تو اپنے چالان کی تیاری کرلئے یعنی کسی دوسری جیل جانے کے لئے تیار رہے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کا تازہ بیان سامنے آیا ہے انہوں نے اعلان کیا ہے عمران خان کو رہا نہ کیا گیا تو وہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ آئینی ترامیم کو انہوں نے عدلیہ پر حملہ قرار دیا ہے۔ سوال ہے آئینی ترامیم کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر موجود نہیں تھے؟ پی ٹی آئی نے آئینی ترامیم کا بائیکاٹ کرنا تھا تو پوری طرح کرتی۔ یہ تو آدھا تیتر اور آدھے بیٹر والی بات ہوئی۔ پی ٹی آئی کے جن ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا وہ پلاننگ کا حصہ تھا۔ پی ٹی آئی والے خواہ کچھ کہیں حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی ہے خصوصا جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنا مقصود تھا۔ حکومت آئینی ترامیم کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہوگئی۔ ابھی دوسرا مرحلہ باقی ہے فوجداری قوانین میں ترامیم باقی ہیں۔ علی امین خواہ سڑکیں بلاک کرے یا دھرنے دے عمران خان کی رہائی ممکن نہیں۔ جن قوتوں نے پی ٹی آئی کے ارکان کو ادھر ادھر کیا وہ انہیں تحفظ دینا جانتے ہیں۔ علی امین نے اب پوری تیاری سے نکلنے کا اعلان کیا ہے۔ سوال ہے انہیں پہلے کس نے پوری تیاری سے روکا تھا۔ علی امین کا اعلان ہے اب ان کا احتجاج فیصلہ کن ہوگا۔ ڈی چوک سے ایسے غائب ہوئے ورکر بے چارے دیکھتے رہ گئے اور آنسو گیس اور پولیس کی لاٹھیاں ان کے حصے میں آئیں۔ یہ جو سانحہ نو مئی کے لوگوں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے ویسے نہیں ایک نہ ایک دن ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں جائیں گے جن لوگوں نے آئینی ترامیم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا انہیں بھی رضامند کر لیا جائے گا۔ جے یو آئی کے امیر کی سیاست سمجھنا پی ٹی آئی والوں کے بس کی بات نہیں۔ مولانا نے جہاں بعض اپنی باتیں منوائیں وہاں آئینی ترامیم میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ عمران خان بڑا بھولا ہے اس کی حکومت گرانے کا آغاز مولانا نے شروع کیا تھا یہ بات ہمارے دوست سنیئر صحافی نواز رضا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر لکھی ہے مولانا ہی وہ واحد سیاست دان تھے جنہوں نے عمران خان کے اقتدار سنبھالتے ہی اسے ہٹانے کے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ کوئی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا بلکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں اس بات پر متفق ہیں عمران خان کو سب سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ایک بات ضرور ہے قیدوبند اور پولیس کی لاٹھیاں کھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ حکومت کا سانحہ نو مئی کے ملزمان کو جیل میں رکھنے کے دو مقاصد واضح ہیں ایک تو انہیں یہ بات مقصود ہے حکومت کسی کو مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھ سکتی ہے دوسرا انہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوانا مقصود ہے۔ حکومت عام عدالت میں ان کے خلاف مقدمات چلاتی ہے ان کی بریت لازمی ہے۔ جہاں تک مولانا کی با ت ہے سانپ تو مر گیا ان کی لاٹھی محفوظ رہی ۔ گو آئینی ترامیم ہوگئیں تاہم خطرہ بدستور موجود ہے ۔

جواب دیں

Back to top button