چھانگا مانگا کی برسی پر تعزیت

سیدہ عنبرین
ماہ ستمبر کے پلے کچھ نہ نکلا اکتوبر بازی لے گیا۔17اکتوبر اور بارہ اکتوبر اس سے قبل تاریخ میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں اب اس میں اکیس اکتوبر بھی در ج ہو گیا ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے علاوہ اس روز کی سب سے بڑی اہمیت قدرے مختلف ہے، یہ دن ہمیں دو انتہائی اہم بزرگوں کی یاد بھی دلاتا ہے جنہوں نے، کشش ثقل کی خبر دینے والوں، پہیہ، ہوائی جہاز اور پینسلیں کے علاوہ لا تعداد ایجادات کرنے والوں سے کہیں زیادہ اہم ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی تھی، یہ دو جرائم پیشہ بھائی تھے ایک کا نام چھانگا اور دوسرے کا نام مانگا تھا، دونوں بھائیوں نے ات اٹھا رکھی تھی، یہ چور اور ڈاکو تو تھے ہی، اس کے علاوہ کوئی ایسا جرم نہ تھا جو انہوں نے اپنے زمانے میں نہ کیا ہو۔ برطانوی حکومت نے انہیں مختلف جرائم میں کالا پانی بھیجنے کی سزا نہ دی، انہیں لاہور سے کچھ فاصلے پر ایک کھلے ویران و غیر آباد علاقے میں بھیج دیا۔ دونوں بھائی گنوں کے پورے تھے، انہوں نے مشقت کیلئے دیئے گئے آلات کا استعمال شروع کیا اور درخت لگانے شروع کئے، کئی برس وہ یہ کام کرتے رہے ، یہی مشقت کرتے کرتے دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، ان کا لگایا ہوا جنگل آج ہرا بھرا ہے، بہت گھنا ہے، جو ہماری جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہماری ’’ نظریاتی سرحدوں‘‘ کا بھی تحفظ کرتا ہے، ہم اس اعتبار سے بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ چھانگا اور مانگا کو بطور سزا اس علاقے میں بھیجا گیا، اگر انگریز دونوں بھائیوں کو یہاں نہ بھیجتا تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ چھانگا مانگا ٹیکنالوجی نے اپنے منظر عام پر آنے کے بعد سے ہر مشکل موقع پر پاکستان کی مدد کی ہے، اس ٹیکنالوجی کی بدولت کئی ارب ڈالر ہمارے خزانے میں آ کر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کی رونق تو نہیں بڑھا سکے لیکن اس ٹیکنالوجی سے جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ کئی ارب ڈالر سے زیادہ اہم ہے، چند ہزار ارب ڈالر خزانے میں آ بھی جائیں تو انہوں نے ایک روز ختم ہی ہونا ہے، خزانہ خالی ہو جائے تو حکومت ختم ہوجاتی ہے، لیکن چھانگا مانگا ٹیکنالوجی کے استعمال سے ختم ہوتی ہوئی حکومت بچ جاتی ہے۔ اسے نئی زندگی مل جاتی ہے، زندگی تو یوں بھی چار دن کی ہے۔ دو دن آرزو، دو انتظار کے، اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے اے این پی کے رہنما مرحوم خان عبدالولی خان کا ایک ویڈیو کلپ سیاسی رونق میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، اس زمانے میں سیل فون ابھی پاکستان نہیں پہنچے تھے، جو سیل فون اول اول پاکستان پہنچا، اس میں کیمرہ نہ تھا کہ اس سے ویڈیو نہ بنائی جا سکتی، لیکن بڑے ویڈیو کیمرے موجود تھے، ان کا استعمال شادی بیاہ کی فلمیں بنانے سے شروع ہوا، پھر سیاسی اور سماجی اجتماعات کی کوریج بھی ہونے لگی، اس لحاظ سے مذکورہ کلپ کو ویڈیو کلپ کہا جا سکتا ہے۔ جناب عبدالولی خان صاحب اس کلپ میں حرف بہ حرف کیا کہتے ہیں پیش ہے ، وہ کہتے ہیں، ممبر نہیں وزیر بک رہے ہیں، جی جمعے کا بازار لگا ہوا ہے، اس پارلیمنٹ کے اندر آپ خود اندازہ لگائیں، اور نہیں ممبر نہیں پاکستان کی بولی لگ رہی ہے، اگر آپ کو ایک سو بیس ممبران کی اکثریت حاصل ہوجائے تو آپ حکومت کر سکتے ہیں پاکستان میں اس طرح اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ممبر ایک کروڑ میں بکے گا تو ایک سو بیس کروڑ روپے چاہئیں ، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی ہو گئی ہے تو چلو دو کروڑ میں سودا کرو تو دو سو چالیس کروڑ جس کے پاس ہوگا وہ پاکستان کو خرید سکتا ہے اور چھ مہینے کے اندر دو ہزار کروڑ کما کر چلا جائے گا۔
جناب عبدالولی خان نے جو کچھ کہا درست کہا ہو گا یہ ان کے خیالات ہیں اس وقت تحریر و تقریر اور سوچ پر پابندی نہیں تھی، پس وہ آزادانہ سوچتے تھے اور جو کہنا ہوتا وہ آزادانہ کہتے تھے، مجھے تو اعتراض اپنی کرنسی کے ڈی ویلیو ہونے پر ہے ، کسی کی خرید و فروخت پر نہیں، ہمارا روپیہ کس بری طرح گر چکا ہے جناب ولی خان صاحب 1990ء کی قیمتیں بتا رہے تھے۔ مال کتنا سستا تھا یعنی ایک یادو کروڑ میں جو کچھ خریدا جا سکتا تھا وہ آج ایک ارب روپے کی قیمت تک جا پہنچا ہے، مہنگائی تمام حدوں کو پار کر گئی ہے، بلکہ اب تو یوں لگتا ہے جیسے ڈیمانڈ زیادہ اور سپلائی کم ہونے پر اشیائے صرف بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں ، یہ بھی ہوسکتا ہے، ڈیلروں نے ’’ اون ‘‘ بڑھا دیا ہو، جو کچھ بھی ہوا ہے یا ہو رہا ہے کچھ اچھا نہیں ہو رہا، مہنگائی کو کنٹرول کیا جانا چاہیے۔
مہنگے سودوں کی بجائے بلاول بھٹو زرداری صاحب کا فارمولا سستا تھا، مال سستے داموں مل سکتا تھا، انہوںنے چھبیسویں ترمیم سے چند روز قبل فرمایا اگر ہمیں اکثریت حاصل نہ ہوئی تو ہم ’’ بروٹ پاور‘‘ یعنی ظالمانہ اکثریت سے یہ ترمیم منظور کرا لیں گے ۔ یہ بات کوئی اور سیاسی نابالغ کہتا تو شاید اتنا شور نہ اٹھتا لیکن یہ بات اس نے کہ ہے جس کے نانا کو اسی بروٹ پاور نے پھانسی گھاٹ تک پہنچایا اور ان کی ماں کو لیاقت باغ میں موت کے گھاٹ اتار دیا، مگر دو اہم رشتوں کو بروٹ پاور کی نذر ہونے کے بعد بھی انہیں حصول اقتدار اور دوام اقتدار حاصل کرنے کے لیے اسی پاور پر بھروسہ کرنا بہت عجیب لگا کیا یہ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کا شارٹ کٹ ہے؟، وہ تمام لوگ جو اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے آئے اور کہتے پھرتے ہیں ہمارے قریبی عزیزوں کو اغوا کر لیا گیا، ہمیں کسٹڈی میں مچھروں والی جگہ پر رکھا گیا، ذہنی اذیتیں دی گئیں، ان کے پاس از روئے ایمان ووٹ ڈالنے کا ایک سنہری موقع ملا تھا جب وہ اسمبلی میں لائے گئے وہ اس وقت چیخ چیخ کر دنیا کو بتا سکتے تھے کہ انہیں کس کس طرح مجبور کیا گیا لیکن وہ تمام دنیا کے سامنے اپنی پارٹی لائن پر عمل کر سکتے تھے، ایوان ان کی حفاظت کیلئے ان کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ گھمسان کا رن پڑا تو جناب اختر مینگل صاحب چند روز قبل ہی استعفیٰ دے کر بیرون ملک چلے گئے اور اپنے دو ممبران کو آزاد چھوڑ گئے تاکہ وہ مرضی کے مطابق اغوا ہو سکیں پھر اب رونا کیسا۔ مولانا فضل الرحمان سب کچھ پچیس تاریخ کے بعد تک لے جاتے تو حقیقی جمہوری ہیرو ہوتے وہ ہیرو نہیں ہیں، انہوں نے نہایت کامیابی سے پی ٹی آئی کے دانت نکالے ہیں، دانت نکلوانے کے بعد درد اب برداشت کریں اور چھانگا مانگا کی برسی پر تعزیت قبول فرمائیں۔





