Column

انجیکشن کے ذریعے دودھ نکالنے کے نقصانات

رفیع صحرائی
وقت کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں میں لالچ اور ہوس اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہم دولت کمانے کے لالچ میں دوسروں کا نقصان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں سے بھی کھیل جاتے ہیں۔ ہم لوگ ذاتی مفید پر ملک و قوم کے مفاد کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔گزشتہ قریباً دو عشروں سے ہمارے ہاں یہ رواج بن گیا ہے کہ گائے یا بھینس سے دودھ نکالنے کے لیے اسے انجکشن لگایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وقت کی بچت کی جائے اور زیادہ دودھ حاصل کیا جائے۔ دودھ دوہنے کا نارمل طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ جانور کے بچے ( کٹّا، کٹّی، بچھڑا یا بچھڑی) کو ماں کا دودھ پینے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب وہ دودھ کی کچھ مقدار پی لیتا ہے تو اسے ہٹا کر جانور کا دودھ دوہ لیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے جانور کا دودھ تھنوں میں آسانی سے اتر آتا ہے۔ مگر جانے کس دانا نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بچھڑے وغیرہ کے ذریعے دودھ اتارنے کی بجائے گائے یا بھینس کو بچوں کی پیدائش والا انجکشن آکسی ٹوسن لگا کر دودھ اتارنا شروع کر دیا اور پھر یہ طریقہ سبھی نے اختیار کر لیا۔ اس طریقہ سے جہاں وقت کی بچت ہوئی وہیں پر دودھ کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا اور جو دودھ بچھڑا پی جاتا تھا اس کی بھی بچت ہو گئی مگر کسی نے اس عمل کے سائیڈ ایفیکٹس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
آکسی ٹوسن Oxytocinیونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ سہولت، آرام اور تیزی سے پیدائش کے‘‘ ہیں۔ آکسی ٹوسن بچے کی ڈلیوری کے وقت ہونے والی دردوں کے دوران دماغ سے قدرتی طور پر خارج ہونے والا ہارمون ہے جو رحم کے پھیلائو اور سکڑائو کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے اس کے علاوہ جب دودھ پینے والا بچہ تھنوں پر منہ مارتا ہے تو اس وقت بھی آکسی ٹوسن خارج ہو کر میمری گلینڈ کے Secretoryٹشوز میں تحریک پیدا کر کے دودھ کو تھنوں میں اتار دیتا ہے۔ آکسی ٹوسن میں 8امائینوایسڈز کی 1ترتیب کے ساتھ موجودگی اسے پروٹین کی طرح کا ہارمون بناتی ہے جو خون کے ذریعے خارج ہونے والے مقام سے اپنی ضرورت کی جگہ پہنچتا ہے۔ اس ہارمون کا بنیادی کام سوڈیم آئینز کو مسلز کے اندر سرایت کرا کر ڈلیوری کے وقت رحم کے عضلات کے پھیلائو اور سکڑائو کے عمل کو کنٹرول کر کے بچے کو برتھ کنال میں دھکیل کر ڈلیوری کے عمل کو تیزی اور سہولت سے مکمل کرانا ہے۔ اس کے علاوہ اس ہارمون کا مقصد دودھ پیدا کرنے والے سیلز Alveoliکے اردگرد پائے جانے والے رکے ہوئے مسلز اور سیلز میں انتشار اور کھنچائو وغیرہ پیدا کر کے دودھ کو تھنوں میں اتارنا ہے۔
بدقسمتی سے یہ انجیکشن پاکستان کے ہر گائوں یا دیہات میں بغیر کسی پریشانی کے ہر چھوٹے بڑے جنرل سٹور یا کریانہ کی دکانوں پر بغیر کسی ڈاکٹر کے نسخے کے بآسانی دستیاب ہے۔ لوگوں میں اس انجیکشن کی سمجھ کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن کو اس کا نام نہیں آتا، وہ دوکاندار سے دودھ اتارنے والا، پسمانے والا یا سنگھانے والا انجیکشن کہہ کر حاصل کرتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ عام لوگوں کو وقتی فائدہ کا پتہ ہونا اور بعد کے نقصانات سے لاعلمی، زیادہ دودھ کا لالچ، دودھ نکالنے کے وقت میں کمی اور آسانی، کٹڑوں اور بچھڑوں کا دودھ بچانا وغیرہ اہم ہیں۔ زیادہ تر عوام اس انجیکشن کے جانوروں کے ساتھ انسانی صحت کے نقصانات سے بھی واقف نہیں ہیں۔
سب سے پہلے اس انجیکشن کا جانوروں میں صبح، شام کا استعمال دودھ اتارنے کے عمل کو تکلیف دہ بنا دیتا ہے۔ اس انجیکشن کے صبح شام بے دریغ استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والی صبح شام کی یوٹرس Contractionجانور میں بالآخر بانجھ پن پیدا کر دیتی ہے جس سے نارمل جانوروں سے لے کر اچھی نسل کی بھینس یا گائے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر گوشت کے بھائو بکنے کے قابل رہ جاتی ہے۔ جانور کی نارمل زندگی بھی اس ہارمون کے بے دریغ استعمال سے کم ہوجاتی ہے۔ جانور کا زیادہ دفعہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونا بھی اسی ہارمون کا مرہون منت ہے کیونکہ آکسی ٹوسن کا اندھا دھند استعمال جانوروں میں ہارمون کے بیلنس کو خراب کر دیتا ہے۔ یہ انجیکشن ساڑو Mastitisکا باعث بھی بنتا ہے کیونکہ ہارمون میں بگاڑ دودھ کے اجزائے ترکیبی کو قائم رکھنے والے سیلز میں بھی خرابی پیدا کر دیتا ہے جس کا نتیجہ ساڑو کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس کے علاوہ جانور کے حیوانے کا بیلنس خراب ہونا بھی اسی انجیکشن کی زیادتی کا ہی شاخسانہ ہے۔
دودھ کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ ہارمون برے طریقے سے انسانی صحت پر اثر ڈالتا ہے۔ آکسی ٹوسن سے نکالا گیا یہ دودھ انسانی جسم میں موجود ہارمونز کے بیلنس کو بھی خراب کر دیتا ہے، اس ڈسٹربینس کی سب سے بڑی مثال بچوں اور بچیوں کا بہت جلدی بلوغت کی عمر کو پہنچ جانا ہے۔ ریسرچ کے مطابق اس سائنسی ایجاد کے بعد لڑکیوں کی بالغ ہونے کی عمر 16سال سے کم ہو کر 10سال تک پہنچ چکی ہے۔ چھوٹی عمر کے لڑکوں میں Gynaecomastia یعنی نوعمر لڑکوں کے سینوں پر عورتوں کی طرح کے ابھار پیدا ہونا، اس کے علاوہ چھوٹے بچوں کی کمزور بینائی، آنکھوں کی کمزوری، چھوٹی سی عمر میں چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر بالوں کا اگائو، جسم میں طاقت کا محسوس نا ہونا، ہر وقت کمزوری محسوس ہونا بھی آکسی ٹوسن کے اثرات ہیں۔ حاملہ خواتین کے اس دودھ کے استعمال سے پیدا ہونے والے بچے میں پیدائشی نقص، قوت مدافعت کی شدید کمی اور ڈلیوری کے وقت خون کا زیادہ اخراج بھی اسی انجیکشن کے دودھ کا شاخسانہ ہے۔ یہ تمام نقصانات انسانوں اور جانوروں کی صحت کی خرابی کا چھوٹا سا نمونہ ہیں مگر اصل میں یہ نقصانات اپنی Slow Poisningاور ہارمون ڈسٹربینس کی وجہ سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ہمارے کسان بھائیوں، دودھ بیچنے کی غرض سے گائے بھینسیں رکھنے والوں اور ڈیری فارمز کے مالکان کے لیے حکومت کو آگاہی مہم چلانے کے علاوہ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ وہ اس انجیکشن کے جانوروں اور انسانوں پر منفی اثرات سے آگاہ ہوں اور اس کے استعمال سے گریز کریں۔

جواب دیں

Back to top button