Column

سعودی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام ہماری ذمہ داری

ایم فاروق قمر
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں، دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے، سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ سے بڑے بھائی والا برتائو کیا ہے اور جب کبھی پاکستان کو ضرورت پڑی ہے سعودی عرب نے پاکستان کو مایوس نہیں کیا۔ سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ یک جان دو قالب والا معاملہ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان اور سعودی عرب دو ایسے ملک ہیں جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور نظریے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ 23ستمبر 1932 کو سعودی عرب بھی احیائے اسلام کے نام پر وجود میں آیا تو پاکستان بھی کلمے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کو تسلیم کرنے میں بھی سعودی عرب نے دیر نہ لگائی۔ اسی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی بنیاد ابتدا میں ہی قائم ہو گئی جو اب تک قائم و دائم ہے۔ سعوی عرب کے حکمران پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور ہیں اور سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا بھائی سمجھا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے شروع سے خصوصی تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنہوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا
اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب مین مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹان کا نام شاہ فیصل ٹان ہے۔
شاہ فیصل شہید کے بعد تمام سعودی حکمرانوں کی ترجیحات میں پاکستان سرفہرست رہا۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کا مسئلہ ہو یا قدرتی آفات کا، سلاب زدگان کا مسئلہ ہو یا پاکستان کی معاشی مشکلات کا، سعودی عرب نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے خزانوں کے منہ پاکستان کے لیے کھول دیئے۔ سعودی عرب کے حکمران پوری امت مسلمہ سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور ہیں اور سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا بھائی سمجھا ہے۔ سعودی حکمرانوں نے پاکستان سے محبت اور تعلق کا اظہار متعدد بار دو ٹوک انداز میں کیا۔ سعودی حکمرانوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ 1965ء کا پاک بھارت معرکہ ہو یا 1971ء کی جنگ، سعودی عرب نے پاکستان کو ہر طرح کی مدد فراہم کی۔1974 ء میں او آئی سی اجلاس کی میزبانی کا شرف پاک سرزمین کو حاصل ہوا۔ اس کا انعقاد بھی سعودی عرب ہی کی محنت کا ثمر تھا۔ اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن
عبدالعزیز نے پاکستان کو شرف میزبانی بخشا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک پر بد ترین عالمی پابندیاں عائد ہوئیں تو سعودی عرب اس موقع پر بھی بڑا بھائی بن کر سامنے آیا۔ ایک برس تک 50ہزار بیرل تیل ادھار دیا۔ 2005ء کے بدترین زلزلے اور 2010ء کے تباہ کن سیلاب میں سعودی عرب نے پاکستان کی مدد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس مشکل وقت میں شاہ عبداللہ کا پاکستان کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہی تو تھا کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں۔ پاکستان پورے ایشیا کے لیے ایک بڑا دروازہ ہے۔ گزشتہ سات ماہ میں سعودی وزارت برائے سرمایہ کاری کے وفد کا نے تیسرا دورہ کیا ہے۔ اس سے قبل رواں سال اپریل اور مئی میں بھی خصوصی وفد بزنس ٹو بزنس بات چیت کے لئے پاکستان آیا تھا۔ اس مرتبہ دونوں ممالک کے کاروباری گروپوں نے شراکت داری میں واضح پیش رفت کی ہے۔ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان دو ارب ڈالر سے زائد مالیت سرمایہ کاری کے 27معاہدوں کو حتمی شکل دی۔ جن معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں ان میں سیمی کنڈکٹرز کی تیاری، تعمیرات، ٹیکسٹائل، پٹرولیم، توانائی، ٹرانسپورٹ اور سائبر سکیورٹی کے شعبے شامل ہیں۔ یادداشتوں پر دستخط معاشی حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہے۔ جس کے مثبت اثرات نمایاں ہوں گے۔ یہ وژن 2030ء کے تحت سعودی عرب اندرون اور بیرون ملک سرمایہ کاری کے بہترین مواقع کی تلاش میں ہے۔ پاکستان اس حوالے سے یقینا میرٹ پر اترتا ہے۔ ملک عزیز اور کان کنی کے شعبوں میں مواقع سے بھرپور ہے۔ اس وقت سعودی عرب سرمایہ کاری کے موقع کی تلاش میں ہے جبکہ پاکستان سرمایہ کاری لانے کا خواہش مند ہے، اس لیے دونوں ملکوں کے لیے معاشی میدان میں پیش رفت کا بہترین موقع ہے۔ سعودی وزیر سرمایہ کاری کے حالیہ دور کے موقع پر جن شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے مفاہمت ہوئی ان میں توانائی زراعت کان کنی انسانی وسائل اور سائبر سکیورٹی قابل ذکر ہے۔ سعودی وزیر کے یہ تاثرات بہت حوصلہ افزا ہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان اقتصادی میدان میں جو کچھ کر سکتے ہیں اس کی بنیادی طور پر کوئی حد نہیں، ہم معاشی استحکام کے اصول میں پاکستان کی کوششوں میں تعاون جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح اور ان کے ساتھ آئے ہوئے کاروباری افراد نے واضح پیغام دیا کہ وہ مستقبل میں خوشحالی اور ترقی کے ثمرات کو پاکستان کے ساتھ بانٹنے کے لیے تیار ہیں۔ خالد بن عبدالعزیز الفالح نے پاک سعودی بزنس فورم سے اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ متبادل توانائی، معدنیات، فوڈ سکیورٹی، زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں قریبی تعاون کا خواہاں ہے اور پاکستان ان شعبوں میں مواقع اور اپنی باصلاحیت افرادی قوت کے ذریعے اس کو ممکن بنا سکتا ہے۔
سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بہترین آئی ٹی ماہرین ہیں۔ مستقبل میں سعودی عرب کو الیکٹرک گاڑیوں اور الیکٹریفیکیشن کی ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان کاپر، ایلومینیم اور تار سازی میں حصہ ڈال سکتا ہے۔ خالد بن عبدالعزیز الفالح نے کہا کہ سعودی عرب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان کی لامحدود صلاحیتوں سے آگاہ ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس میدان میں پاکستان کے پاس بہترین انسانی صلاحیت موجود ہے۔ یہ خیالات بہت قابل قدر اور
برادر ملک کے خلوص کے آئینہ دار ہیں۔ ضرورت امر کی ہے کہ سرمایہ کاری کے منصوبوں کو عملی شکل دینے میں دونوں ملک ممالک کی جانب سے بھرپور عزم کے ساتھ کام کیا جائے۔
بلا شبہ سعودی عرب معاشی استحکام میں پاکستان کا شراکت دار ہے اور اس کی 50سے زائد کمپنیاں پاکستان میں کاروباری مواقع پر بات چیت کا حصہ بن رہی ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی وہ اپنی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جن دوست ممالک نے فقید المثال کردار ادا کیا ہے سعودی عرب ان میں سے ایک ہے۔ سعودی عرب معیشت کے سلسلے میں تعاون کے علاوہ بھی سعودی عرب نے کئی مواقع پر مختلف حوالے سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر مدد کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی ایک سچا مخلص دوست ہے۔

جواب دیں

Back to top button