Column

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

ندیم ملک

روز بہ روز سیاسی مخالفین بڑھتے جا رہے ہیں جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں، حکمران اپنی کرسیوں میں بیٹھے مزے لے رہے ہیں، جبکہ عوام ذلت و رسوا ہو رہے ہیں۔ آئے روز کہیں نہ کہیں دھرنے اور احتجاج ہو رہے ہیں، اس سے نقصان کس کا ہو رہا ہے، کبھی کسی نے سوچا؟۔ جس پاکستان کا تذکرہ تمام سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں، اس کو ان دھرنوں، احتجاجوں سے کتنا اونچا مقام حاصل رہا ہے، اس کے بارے سوچنا چاہیے، چند سال کی حکومت بنا کر لوٹ مار کر کے عوام کو پریشانی میں مبتلا کرنے والے ہمارے سیاستدانوں کو شاید عوام کو تنگ کرکے مسرت ہوتی ہے، یہ غریب عوام کے بارے کیوں نہیں سوچتے؟۔ سڑکوں پر زور دینے سے بہتر ہے تعلیم پر زور دیا جائے۔ ملک میں نوکریاں نہیں ہیں، سال بھر میں جو چند مخصوص نوکریاں آتی ہیں وہ بھی تعلق اور سفارش کی نذر ہو جاتی ہیں۔ نوجوان پاکستان سے کوچ کرتے جا رہے ہیں لیکن ان کو اپنی کرسی کی فکر ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے آج تک کتنے حکمرانوں نے غریب عوام کا سوچا ہے ؟۔ اسٹبلشمنٹ کہتی ہے ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، لیکن سیاسی لوگ ان کے علاوہ کہیں منتخب بھی نہیں ہوتے۔ عوام جس کو اپنا ووٹ دیتے ہیں ان کو سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے، جو اسٹبلشمنٹ کے قصیدے
لکھے ان کو صاحب اقتدار مقرر کر دیا جاتا ہے۔ گلی محلوں سے نوجوانوں کو اٹھایا جا رہا ہے، ان کا قصور کیا ہے ؟۔ وہ اس حکومت کی پالیسیوں سے انحراف کر رہے ہیں جو حکومت ہم پر مسلط کر دی گئی ہے۔ اس کی نفی کرتے ہیں۔ کیا پاکستان کے شہریوں کے پاس کوئی حقوق نہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ لیڈر کے لیے آواز بلند کریں؟ ۔ حکمران سیاست کی بجائے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں، ظلم کی انتہا ہوگئی ہے، فی الحال جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس سے ملک میں معاشی تنگ دستی کے امکانات نظر آ رہے ہیں، جس کے پاس ایک وقت کی روٹی نہیں وہ حکمرانوں کے بارے کیا کہیں گے ؟۔ تنخواہ دار طبقہ بجلی کے بل ادا کرے کہ روٹی کھائے؟۔ خدارا ملک کا سوچیں، عوام کا سوچیں، یہ انتقامی سیاست ختم کریں، عوام تنگ آچکے ہیں بل اور ٹیکس ادا کرکے۔
ہم کو زندگی بسر کرنے دیں، ہم بھی پاکستان کے امن پسند شہری ہیں، ہمیں سکون سے رہنے دیں۔
جگر صاحب نے کہا تھا
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
آخر میں لاہور سے صادق جمیل کی تازہ غزل
اس قدر عقلمند دروازہ
بس مجھی پر ہے بند دروازہ
اونٹ والوں سے دوستی ہے اگر
گھر کا رکھو بلند دروازہ
اس کے شیریں سخن نے کر ڈالا
تلخ موسم میں قند دروازہ
میری کٹیا میں اس کے آتے ہی
ہو گیا ارجمند دروازہ
کیسا مہمان تھا کہ جس کے لئے
آیا بھر کے زقند دروازہ
تا قیامت نہیں جسے کھلنا
ہے وہ دل کو پسند دروازہ
نوبت آتی نہیں ہے دستک کی
ہو اگر درد مند دروازہ
یہ جو سب کے لئے کھلا ہے جمیل
تم کو دے گا گزند دروازہ

جواب دیں

Back to top button