آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

امتیاز عاصی
چلیں آئینی ترامیم کا مرحلہ کسی نہ کسی طریقہ سے طے ہو گیا۔ آئینی اصلاحات کی آڑ میں جو ترامیم لائی جا رہی تھیں کم از کم وقتی طور پر عوام کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی کوشش کامیابی نہیں ہو سکی۔ سول افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی لٹکتی تلوار سے بشمول عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر ملزم بچ گئے البتہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس بننے کا راستہ روکنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی اور پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی ممبران کی اکثریت اس امر کی غماز ہے سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری میں شفافیت کی امیدیں دم توڑ گئیں ہیں۔ جہاں تک اس ناچیز کی معلومات ہیں حکومت کو جسٹس منصور علی شاہ کے بعد جسٹس منیب اختر بھی شائد قابل قبول نہ ہوں تو اگلے سنیئر جج یحییٰ آفریدی رہ جاتے ہیں۔ یحییٰ آفریدی مرحوم سابق بیوروکریٹ اور کے پی کے چیف سیکرٹری کیپٹن عمر خان آفریدی کے صاحبزادے ہیں۔ عمر خان آفریدی کمشنر لاہور اور چیف کمشنر اسلام آباد بھی رہ چکے تھے۔ عمر آفریدی کو ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بے نظیر بھٹو نے اپنے دور میں سفارت کی پیش کش کی تھی تاہم عمر خان آفریدی نے سفیر بننے سے معذرت کر لی تھی۔ آئینی ترامیم کی اس کش مکش میں جے یو آئی کے امیر مولانا
فضل الرحمان کا کردار مثالی رہا حکومت کی بارہا کوششوں کے باوجود انہیں من پسند ترامیم کے لئے قائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63اے کا معاملہ التواء میں رکھنا پڑا ہے ورنہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سے آئینی ترامیم کے موقع پر حمایت حاصل کی جا سکتی تھی۔ حکومت آخری وقت تک من پسند ترامیم کے سلسلے میں جے یو آئی کے امیر کو رضامند نہیں کر سکی۔ چونکہ حکومت کا مطمع نظر آئینی ترامیم کا مرحلہ کسی طرح چیف جسٹس کی سبکدوشی سے پہلے ہر حال میں مکمل کرنا تھا جس میں وہ کامیاب ہو گئی ہے۔ ملکی سیاست کا مقصد ملک و قوم کی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات پر مبنی ہے لہذا آئینی ترامیم پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔ اگرچہ مولانا نے اپنی تقریر میں اس بات کا اعادہ کیا انہوں نے سانپ کے دانت نکال کر اس کا زہر نکال دیا ہے لیکن حکومت آئینی ترامیم کے پہلے مرحلے میں بہت حد تک کامیاب ٹھہری ہے۔ آئینی ترامیم کے اس مرحلے پر حکومتی حلقے خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ اب حکومت اپنے پسندیدہ چیف جسٹس کو لانے میں آسانی سے کامیاب ہو جائے گی کیونکہ اس معاملے میں حکومت نے آئینی ترامیم کرکے اپنی
مرضی کا چیف جسٹس لانے کی راہ ہموار کرلی ہے۔ جے یو آئی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے اگر یہ ترمیم ہو جاتی ملک کے کسی شہری کو بغیر وجہ بتائے اٹھایا جا سکتا تھا جس پر کوئی عدالت کسی ادارے سے باز پرس نہیں کر سکتی تھی۔ مولانا بڑے زیرک سیاست دان ہیں انہیں اس بات کا پوری طرح ادراک ہے اگر ایسی ترمیم ہوجاتی مستقبل قریب میں ان کی جماعت کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ آئینی ترامیم کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دیگر صوبوں کو دورہ بھی کیا کسی طرح وہ بار کونسلوں کو آئینی ترامیم کے لئے قائل کر سکیں۔ بلاول بھٹو کو بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب دوران خلاف توقع تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ہائی کورٹ بار کے صدر نے بلاول بھٹو زرداری کا یاد دلایا ان کی والدہ محترمہ اور ملک کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور نواز
شریف نے 2006ء میں لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا وہ آج کہاں ہے۔ بار کے صدر نے با آور کرایا میثاق جمہوریت میں صحافتی کی آزادی اور ملک کے اداروں کو قابل جواب قرار دینے کا عہد کیا گیا تھا وہ آج کہاں ہے؟ آئینی عدالت قائم ہو جاتی ہے سپریم کورٹ کی حیثیت بے معانی رہ جاتی۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں آئینی عدالت کے فیصلے کے خلاف کسی فورم پر اپیل کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔ جے یو آئی کے امیر کی کوششوں سے آئینی عدالت کا خواب ادھورا رہ گیا البتہ آئینی بینچ بن سکے گا جیسا کہ سپریم کورٹ میں شرعی مقدمات کے لئے الگ بینچ بنایا جاتا ہے۔ آئینی ترامیم میں صوبوں کو بھی آئینی بینچ بنانے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ آئینی ترامیم کی دوڑ میں پی ٹی آئی رہنمائوں سے مختلف اوقات میں رابطے جاری رہے تاہم بات چیت کرنے والے پی ٹی آئی رہنمائوں کے اس آئینی ترامیم سے اتفاق کرنے کا مینڈیٹ نہ ہونے سے عمران خان کی جماعت نے سینیٹ کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے ایک رکن عامر ڈوگر نے حکومتی کمیٹی سے آئینی ترامیم پر اتفاق کیا۔ ایوان بالا سے خطاب کرنے ہوئے حکومتی لیڈر نے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر سے عامر ڈوگر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کی استدعا کی۔ پی ٹی آئی کے سنیئر رہنما حامد خان ایڈوکیٹ نے آئینی ترامیم کے خلاف ملک گیر تحریک کا اعلان کیا ہے۔
آئینی ترامیم کے مرحلے پر پی ٹی آئی ، بی این پی مینگل اور جے یو آئی کے سینیٹر کو ادھر ادھر کرنے کا شور و غوغا رہا جس پر جے یو آئی کے سنیئر رہنما مولانا غفور حیدری نے اپنے خطاب میں نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ آئینی ترامیم کا مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے حکومت فوجداری قوانین میں بہت سی ترامیم لا رہی ہے جس کا مقصد عوام کو فوری انصاف دلانا ہے ۔ ریاست پاکستان کے حالات اس وقت بہتر نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ کے کرپشن میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔ ججوں کے تقرر کے طریقہ کار سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا سیاست دانوں کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات بہت جلد ختم ہو جایا کریں گے اور حکومت مخالف سیاسی رہنمائوں کو جلد سزائیں دینے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ آئینی ترامیم سے حکومت فیس سیونگ اور آئینی اصلاحات کی اعصابی جنگ جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ آئینی ترامیم سے شریعت کورٹ سے جج سپریم کورٹ میں جا سکیں گے ۔ اب تک کے طریقہ کار کے مطابق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے سبکدوش ہونے والے ججز کو وفاقی شرعی عدالت میں تعینات کیا جاتا ہے، نئی ترامیم کے بعد نہ جانے کیا طریقہ کار ہوگا آئینی ترامیم کا غلغلہ ابھی بیٹھا نہیں، آگے آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا۔





