Column

’’ اللہ آپ کی آسانیاں دور فرمائے ‘‘

صفدر علی حیدری

کہتے ہیں دنیا میں پائے جانے والے سارے سانپ زہریلے نہیں ہوتے۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں زہر ہی نہیں ہوتا ۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ صرف پندرہ فیصد زہریلے ہوتے ہیں ۔ پھر یہ بھی ہے کہ سانپ کو اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ اس کا زہر کتنا قیمتی ہے سو وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنا زہر ضائع ہونے سے بچائے۔ سو کوئی سانپ ڈرا کر، کوئی تھوک ڈال کر اور کوئی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہاں اگر انسان غلطی سے اس پر پائوں رکھ دے یا اس کے زیادہ قریب چلا جائے تو پھر وہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنے تحفظ کے لیے ڈس کیا کرتا ہے۔
سانپ کا ذکر بے سبب نہیں ہے ۔ ہمارے پیارے مولانا نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کالے ناگ کا سارا زہر نکال دیا ہے ( ویسے ناگ بڑے سانپ کو کہتے ہیں، اور ان میں زہر نہیں ہوتا ۔ وہ لپٹ کر مارتے، کچا نگلتے اور تھوڑی دیر بعد اگل دیا کرتے ہیں ) ان کی بات سن کر ہمیں اپنا بچپن یاد آ گیا۔ جب گھر کے بزرگ ہمیں پرانے قصے سنایا کرتے تھے ۔ ان میں سانپوں کا ذکر خیر بھی ہوا کرتا تھا ۔ تو جب جب کسی سانپ کو ذکر آتا ہم لوگ ڈر کر اپنے پائوں زمین سے اٹھا لیا کرتے تھے اور چارپائی پہ رکھ لیا کرتے تھے۔ کیوں کہ سانپ کو چارپائی پر چھڑنے کی ’’ اجازت ‘‘ نہیں ہوتی۔ سو ہم اس پر پائوں رکھ کر مطمئن ہو جایا کرتے تھے ۔ ویسے سانپ کے دانت توڑ دئیے جائیں اور زہر بھی نکال لیا جائے تب بھی وہ رہتا سانپ ہی ہے۔ ہمیں آج تک ہمت نہیں ہوئی کہ ایسے کسی بے ضرر سانپ پر ہاتھوں میں اٹھا لیں یا اسے گلے کا ہار بنا لیں۔ آخر اس سے برسوں پرانا خوف جڑا ہے۔ جی ہاں صاحب خوف ، خوف جو مثبت جذبہ بھی اور منفی بھی۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے خوف زدہ ہو جاتے ہیں تو یہ والا ہوا مثبت خوف مگر رسی کو سانپ سمجھ کر ڈر جانا اندیشہ ہوا کرتا ہے جسے منفی سمجھنا چاہیے ۔
زندگی میں بھی ہم کئی ایسے لوگوں سے خوامخواہ ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں ڈس لیں گے مگر ۔۔۔ ان میں بھی زہر نہیں ہوتا ۔ وہ نقلی بندوق کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک آدمی نے پستول دکھا کر کسی کی جیب خالی کر لی اور پھر راز دارانہ انداز میں اسے کہا ’’ میں ان پیسوں سے پستول کی گولیاں خریدوں گا۔ آخر کب تک خالی پستول سے کسی کو ڈرایا جا سکتا ہے ؟‘‘۔ مولانا صاحب نے ہمیں ہمارا بچپن یاد دلایا تو ہمیں اپنی حرکت بلکہ شرارت یاد آ گئی ۔ ہمیں بچپن میں یہ بتایا گیا کہ بھڑ مارنے سے دو رکعت نماز کا ثواب ملتا ہے۔ بس پھر کیا تھا جہاں کہیں بھڑ دیکھتے اس سے بھڑ جاتے۔ پھر یا تو وہ جان سے جاتا یا ہم چہرے سے جاتے۔ منہ پھول کر کپا ہو جاتا اور ہم ہنسی کا گول گپہ بن جاتے لیکن اس نیک کام سے باز نہ آتے ۔ آخر ثواب بھی تو کمانا ہوتا تھا ۔ اسی دوران ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ بھڑ کی ساری طاقت اس کی دم میں نصب ڈنگ میں ہوتی ہے ۔ اگر اسے کسی طرح نکال دیا جائے تو وہ بے ضرر کیکڑا ہو جاتا ہے ۔ بس پھر کیا تھا ، ہم نے اس منصوبے کو عملی ’’ پاجامہ ‘‘ پہنانے کا فیصلہ کیا ۔ ہوا میں ہاتھ لہرا کر کسی بھڑ کو نیچے ڈالا، پھر جھاڑو کی تیلی سے اس کی دم کا آخری حصہ اڑا دیا ۔ یوں اس کا ڈنگ بھی ساتھ ہی ہٹ جاتا۔ پھر ہم اسے ہتھیلی پر رکھ اس کی بے بسی کا تماشا دیکھتے تھے۔ سانپوں کا ذکر یہیں تک اب بات کرتے ہیں موجودہ ملکی سیاسی حالات کا۔
مہینوں جاری رہنے والی بحث و مباحثے، اتحادی پارٹیوں کے ناراض ہونے اور پھر مان جانے ، آدھ درجن کے نزدیک مجوزہ ترمیم کے مسودوں پر گفتگو کے بعد اُن میں ہونے والی کاٹ چھانٹ اور چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے اُن کے اراکین پارلیمان کو مبینہ طور پر اِس ترمیم کے حق میں ووٹ لینے کے لیے ہراساں کیے جانے کے دعوئوں کے بعد بلآخر پیر کی علی الصبح پاکستان کی پارلیمان نے 26 ویں ’’ آنٹی ترمیم ‘‘ ( آئینی ترمیم) کا بِل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا ۔ اب اس ترمیم کی رو سے ، سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس 22اکتوبر رات 12بجے تک تین نام آئینی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں ۔
چیف جسٹس پاکستان آئین کے آرٹیکل 175اے کی ذیلی شق 3کے تحت 3سینئر ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے اور پارلیمانی کمیٹی تین ججز میں سے ایک جج کا تقرر کرے گی۔26آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد سینئر ترین جج چیف جسٹس کے لیے آٹو میٹک چوائس نہیں ہو گا بلکہ چیف جسٹس پاکستان کا انتخاب 3سینئر ججز میں سے کیا جائے گا۔ نئی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کے نام کا فیصلہ 12رکنی پارلیمانی کمیٹی 2تہائی اکثریت سے کرے گی ۔ کمیٹی وزیر اعظم کو چیف جسٹس کا نام بھیجے گی جس کے بعد وزیر اعظم اب صدر مملکت کو منظوری کے لیے نام بھیجیں گے ۔3سینئر ججز میں سے کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیرِ غور لایا جائے گا جبکہ چیف جسٹس پاکستان کی عہدے کی مدت 3سال یا ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 65سال ہو گی۔26 ویں آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری کی غرض سے اتوار اور پیر کی درمیانی رات 12بجے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے تک ایوان میں ترمیمی بل کی منظوری کے لیے حکومت کو 224ایم این ایز کی حمایت درکار تھی ، جب کہ شق وار منظوری کے دوران 225اراکین قومی اسمبلی ارکان نے ترمیمی بل کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اس سے قبل اتوار کی شام سینیٹ کے اجلاس میں بل پیش کیا گیا تھا جہاں دو تہائی اکثریت سے بل منظور ہو تھا۔ دو تہائی اکثریت ثابت کرنے کے لیے 64ووٹ درکار تھے لیکن ترمیم کے حق میں حکومت کو 65ووٹ ملے ۔قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے اسمبلی میں کہا کہ ’’ ہمارے پانچ لوگوں کو زود و کوب کر کے یہاں ووٹنگ کے لیے لایا گیا ہے‘‘، مولانا فضل الرحمان نے ارشاد فرمایا ’’ مجموعی طور پر ہم نے اس کالے سانپ کے دانت توڑ دئیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا ہے ‘‘۔ اب انھیں کون بتائے کہ صاحب آپ نے اس کوشش میں سپریم کورٹ کے دانت توڑ ڈالے ہیں ویسے سچ تو یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کی وجہ سے کچھ شقوں کو ہٹانا ممکن ہوا۔ مولانا اصل میں اسٹیبلشمنٹ کی پچ پر کھیلتے ہیں اور پچ کے دونوں جانب بڑی مہارت سے کھیلتے ہیں۔ انھوں نے پوری عوام کی توجہ بھی حاصل کر لی، کچھ شقیں بھی نکلوائیں اور حکومت کو بھی راضی کر لیا ۔ دراصل ان کا طریقہ واردات ’’ ہومیو پیتھانہ ‘‘ تھا ۔ اپنا رانجھا بھی راضی کر لیا اور حکومت اور اپوزیشن کو بھی ساتھ ملا کر رکھا۔ اپنی لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے دی اور دوسروں کے سانپ کو بھی کوئی گزند نہ پہنچنے دیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اس ترمیم کے بعد ایک سپریم ہو گی اور دو دو چیف۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں ہو سکتیں، لیکن ایک سپریم کورٹ میں دو چیف ہو سکتے ہیں۔
یہ وہی پارلیمنٹ ہے جسے وہ جعلی کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے ۔ انہوں نے ایوان میں سب کے خوب خوف لتے لیے ۔ ان کی ہر بات ٹھیک ، وزن دار تھی مگر دن کے اختتام پر ہوا کیا کہ انہوں نے ترمیم کی منظوری کے لیے اپنا کندھا آگے کر دیا ۔ پھر وہ سب کو مبارک بادیں دیتے دکھائی دئیے ۔ حالاں کہ مبارک باد کو ان کو دینی چاہیے کہ وہ عمدگی سے کھیلے اور مین آف دی میچ رہے ۔ مولانا ویل پلیڈ ۔ ویل ڈن
سچ تو یہ ہے کہ جب تمام ادارے اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے دوسرے اداروں کے حقوق سلب کر لیتے ہیں تو ایسے حالات میں جمہوریت ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے ۔ آرٹیکل 184کے تحت از خود نوٹس کا اختیار بھی اب آئینی بینچوں کے پاس ہو گا ۔ آرٹیکل 185کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیس آئینی بینچوں کے دائرہ اختیار میں آئیں گے ۔ یہاں پر بلاول زرداری کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ اس نے مظہر شاہ والی بڑکیں ماریں مگر رزلٹ سلطان راہی والا لیا ۔ بھٹو کا نواسا اب بس زرداری کا بیٹا ہے۔ پی پی پی کو اب زیب نہیں دیتا کہ جمہوریت کی بات کرے یا بھٹو کا نعرہ لگائے ۔ ن لیگ تو ویسے ہی مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے۔ پی پی پی نے ن لیگ کے ساتھ مل کر کراچی کی مئیر شپ والا یہاں بھی اپنایا اور کامیاب رہے۔ افسوس صد افسوس ۔ میثاق جمہوریت پر دست خط کرنے والوں نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ کہتے ہیں بھوک کے وقت حرام کھانا بھی جائز ہو جاتا ہے کہ انسان کھا کر حلال کی تلاش میں لگ جائے۔ اسے ’’ حالت اضطرار ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تو کیا اسے سیاسی حالت کہا جا سکتا ہے ؟ یقیناً نہیں۔ کیوں کہ یہ کام مبارک باد دینے اور لینے والا تو نہیں ہے ۔
میں نے خود سے سوال کیا کہ اس سے ہم عوام کو کیا ملا ؟ سچ تو یہ ہے صرف مایوسی، فقط مایوسی۔
ان ترامیم میں سے ایک کا بھی تعلق مفاد عامہ سے نہیں ہے۔ عوام کو اس سے مایوسی کے سوا اور مل ہی کیا سکتا ہے ۔ سو بے فکر رہیں وہ اسی تنخواہ پر کام کرتی رہے گی ۔ اس ترمیم سے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ملک کا چیف جسٹس بد ترین ناکامی سے دوچار ہوا اور عزت سادات سے محرومی کی سزا پائی ۔ مجھے اس کی شقوں کا علم نہیں سو کچھ اور روشنی ڈالنا میرے لیے ممکن نہیں۔ میں اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے ہرگز شرمندگی محسوس نہیں کر رہا ۔ جن لوگوں نے اس نے حق میں ووٹ دیا ہے وہ کون سا جانتے تھے کہ اس میں کیا ہے۔ ان کی غالب اکثریت کا حال یہ ہے کہ ایک بار اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم نے کہا ’’ اللہ آپ کی آسانیاں دور فرمائے‘‘، تو جواباً وہ اونچی آواز میں بولے، آمین!

جواب دیں

Back to top button