26ویں آئینی ترامیم میں ہے کیا؟

تجمل حسین ہاشمی
وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کابینہ اجلاس کے بعد اور بعدازاں سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے 26ویں آئینی ترمیم کی وضاحت کی، جس کی اہم شقیں درج ذیل ہیں۔1۔ چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار ، جس کا اختیار وزیراعظم کے بجائے پارلیمان کرے گی۔ 2۔ آٹھ ارکان قومی اسمبلی (ایم این ایز) اور چار سینیٹرز پر مشتمل 12رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کے عہدے کیلئے تین ججوں کے نام فائنل کرکے وزیراعظم کو بھجوائے گی۔3۔ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ تک یا تین سال تک چیف جسٹس رہ سکیں گے۔4۔ آئینی بینچوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی سطح پر اور صوبوں میں میکنزم واضح کیا جائیگا۔ 5۔ صوبوں کی اسمبلیاں مجموعی ارکان کے 51فیصد کے ساتھ قرارداد منظور کریں تو متعلقہ صوبے میں آئینی بینچ قائم کیا جاسکے گا۔ 6۔ آئینی
بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوگا۔7۔ ججوں کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کوٹ کے چار سینئر ججوں، چار پارلیمنٹرینز، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل ہوگا۔ 8۔ صوبائی جوڈیشل کمیشن میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائیگی۔9۔ جوڈیشل کمیشن کے ذمہ داریوں میں ججوں کی کارکردگی کی تشخیص بھی شامل ہوگی۔10۔ جوڈیشل کمیشن کو اختیار ہوگا کہ وہ رولز بنا کر ایک طریقہ کار وضع کرے۔11۔ جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس اور صوبائی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ ملکر ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔12۔
جوڈیشل کمیشن ججوں کی پیشہ ورانہ استعداد کے بارے میں اپنی رپورٹ دے گا۔ 13۔ ملکی معیشت سے ربا کے نظام کے خاتمے کی غرض سے بھی ایک تاریخ دی گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل، شریعت کورٹ، موسمیاتی تبدیلی اور سود سے متعلق ترامیم بھی مسودے میں شامل ہیں ۔ اس ترمیمی بل کے مسودے میں ٹرائل میں تاخیر، ایف آئی آر، ضمانت، اخراج اور ماہرین کی رپورٹس سمیت رکی ہوئی چیزوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ "سیاسی جماعتوں کے درمیان طویل مذاکرات، بحث و مباحثوں اور لفظی جنگوں کے بعد بالآخر اتحادی مولانا فضل الرحمان کو بل کی حمایت پر رضا مند کرنے میں کامیابی ہوئی ۔ تاہم پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف نے اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ کیا یہ ترمیم عوامی عدل و انصاف فراہم کر پائے گی ، جس ترمیم کو لیکر چیئرمین پیپلز پارٹی ان تھک محنت سے کام کر رہے تھے۔ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی نے اٹھارہویں ترمیم کو کامیابی سے پاس کرایا تھا۔ اس کو اپنی کامیابی قرار دیتی ہے ۔ مذہبی حلقوں میں یہ ترمیم زیادہ اہم سمجھی جا رہی ہے۔ اس ترمیم میں سود سے متعلق شق شامل ہے جس کی وجہ سے ملک معاشی طور پر مضبوط ہو جائیگا۔ 2030 میں سود کے خاتمہ کے حوالہ سے
جاری شرعی کورٹ کے فیصلے پر اس حلیہ ترمیم میں اقدامات کئے گئے ہیں ۔ جو قوم اور ملک کی فلاح میں اہم ہوں گے۔ ہم اسلامی ہیں اور سود کی اسلام میں ممانعت ہے، سود معاشی سرکل کو جکڑ کر رکھتا ہے۔ غیر مساوی تقسیم اور معاشرہ میں تفریق کو جنم دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں سود سے متعلق سخت احکامات ہیں۔ اس ترمیم میں سب سے خاص بات سودی نظام کے خاتمہ کیلئے حکومت کی طرف سے واضح پالیسی نظر آنا ہے جبکہ ماضی میں مسلم لیگ ن کی طرف سے سودی فیصلے کیخلاف نظرثانی کیلئے اعلی عدلیہ سے دو بار راجو کر چکی تھی۔ وفاقی شرعی عدالت نے لگ بھگ 19سال بعد سود کیخلاف تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اس نظام کے مکمل خاتمے کیلئے 5سال کی مہلت دی تھی جو اب قریب ہے۔





