Column

مجھے میری زبان یہاں تک لائی ہے

رفیع صحرائی
مولانا فضل الرحمان ایک انتہائی زیرک، معاملہ فہم اور سمجھدار سیاست دان ہیں۔ جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتے ہیں۔ سیاست کے کھیل کو شطرنج کی طرح سوچ سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ اپنے دروازے کسی پر کبھی بند نہیں کرتے۔ اپنے مخالفین کو بھی عزت و احترام دیتے ہیں۔ آپ انہیں کتابی سیاست کی مجسم صورت کہہ سکتے ہیں۔ ان کے کٹر مخالف اور سیاسی مخالفت کو دشمنی کی حد تک لے جانے والے سیاست دان عمران خان پر برا وقت آیا ہے تو مولانا فضل الرحمان واحد توانا آواز ہیں جو عمران خان کے حق میں بلند ہوئی ہے۔ عمران خان نے ماضی میں مولانا کو کیا کچھ نہیں کہا۔ اپنے ہر جلسے میں مولانا کا نام بگاڑ کر لینا اور ان کی تضحیک کرنا عمران خان نے اپنا فرضِ منصبی سمجھ رکھا تھا۔ اگر یہی کام مولانا نے کیا ہوتا تو عمران خان زندگی میں کبھی مولانا سے دوبارہ رابطہ بھی نہ کرتے۔ یہی فرق ہے مولانا اور عمران خان میں اور ان کی سیاست میں۔ اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیں کہ مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی اور سینٹ کی کم نشستیں رکھنے کے باوجود آج ملکی سیاست میں مرکزی حیثیت کے حامل ہیں جبکہ عمران خان اپنی زبان کی وجہ سے گزشتہ چودہ ماہ سے خود جیل میں جبکہ ان کی پارٹی لیڈرشپ اور ورکرز مسلسل سڑکوں پر ہیں اور ماریں کھا رہے ہیں۔
ہم نے بی اے کے نصاب میں Edward Lawburyکی ایک نظم The Huntsmanپڑھی تھی جس میں Kagwaنام کے ایک شیر کے شکاری کو جنگل میں ایک کھوپڑی پڑی ملتی ہے۔ وہ کھوپڑی سے پوچھتا ہے کہ ’’ تم یہاں کیسے آئیں؟‘‘، کھوپڑی جواب دیتی ہے کہ میری زبان مجھے یہاں تک لے کر آئی ہے۔ Kagwaجلدی سے گھر پہنچتا ہے اور پھر شاہی دربار میں حاضر ہو کر بادشاہ سلامت سے بولنے والی کھوپڑی کا ذکر کرتا ہے۔ بادشاہ کہتا ہے کہ میں نے اپنی پیدائش سے لے کر آج تک بولنے والی کھوپڑی کو دیکھا نہ سنا۔ پھر بادشاہ اپنے دو محافظوں کو بلوا کر کہتا ہے کہ اس کے ساتھ جائو اور بولنے والی کھوپڑی کو تلاش کرو۔ اگر اس کی بیان کردہ کہانی جھوٹی ثابت ہو اور کھوپڑی کچھ نہ بولے تو Kagwaموت کا حقدار ہو گا۔ جنگل میں کئی دنوں
کی تلاش کے بعد انہیں کھوپڑی مل جاتی ہے۔ Kagwaکھوپڑی سے پوچھتا ہے کہ تم یہاں کیسے پہنچیں؟ جواب میں کھوپڑی خاموش رہتی ہے۔ بار بار پوچھنے پد بھی جب کھوپڑی کچھ نہیں بولتی تو بادشاہ کی ہدایت کے مطابق محافظ Kagwaکی گردن اڑا دیتے ہیں۔ اس کے قتل ہوتے ہی وہی کھوپڑی اپنا منہ کھولتی ہے اور Kagwaسے پوچھتی ہے ’’ اے شکاری! تم یہاں کیسے پہنچے؟‘‘، تب مردہ آدمی جواب دیتا ہے، ’’ Talking brought me here‘‘ ( مجھے میری زبان یہاں تک لائی ہے)۔
عمران خان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے۔ 2018ء میں میاں شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بنانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ دورانِ انٹرویو جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کا وزیرِ خارجہ کون ہو گا؟، آپ کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ کسے بنایا جائے گا؟ میاں شہباز شریف کا جواب تھا، ’’ اس کا فیصلہ میاں نواز شریف کریں گے‘‘۔
یوں میاں شہباز شریف انٹرویو میں ناکام لوٹے اور پلان بی پر عمل کرتے ہوءے عمران خان کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کامیاب ہونے کے بعد عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہی نہیں بلکہ پوری کاپی پر ایک تھے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اپنے دعووں کے برعکس عمران خان ڈلیور نہ کر سکے۔ ان کی تمام تر توجہ اپنے مخالفین کو دبانے اور انہیں جیلوں میں ڈالنے پر مرکوز رہی۔ اس دوران بذریعہ عثمان بزدار سب سے بڑا صوبہ پنجاب فرح گوگی کے حوالے کر دیا گیا۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ورکرز میں بھی بے چینی بڑھنے لگی مگر عمران خان کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ الیکشن میں عوام کے پاس جانے کی بجائے بذریعہ فیض حمید 2035ء تک اقتدار میں رہنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ جب تحریکِِ عدمِ اعتماد کے ذریعے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو یہ صدمہ وہ برداشت نہ کر سکے۔ وہ تو تازندگی مسندِ اقتدار پر براجمان رہنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔
اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان سڑکوں کی زینت بن گئے۔ ملک کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا تھا۔ آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا مگر عمران خان احتجاج میں شدت لاتے ہوئے جلسوں پر جلسے کیے جا رہے تھے۔ وہ کبھی سائفر کو بنیاد بنا کر اپنی حکومت گرانے کا سبب امریکہ کو قرار دیتے تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے میر جعفر اور میر صادق کے ناموں سے پکارتے۔ ڈرٹی ہیری کی اصطلاح بھی انہوں نے ایجاد کر لی تھی۔ پھر جب وہ زمان پارک لاہور کے گھر منتقل ہوئے تو اس ایریا کو عملاً نو گو ایریا بنا دیا گیا۔ ان کے ورکرز نے پولیس پر تشدد بھی کیا اور پٹرول بم بھی پھینکے۔ حالات سنگین ہو رہے تھے اور عمران خان اسے اپنی فتح سمجھ رہے تھے۔ ان کے مخالفین اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب رہے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت کے درجے سے گرا کر دہشت گرد جماعت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ادھر نرگسیت کا شکار عمران خان اپنی ذات کی خاطر سب کچھ تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے وہ پارٹی میں بھی ڈکٹیٹرشپ روا رکھے ہوئے تھے۔ ان کا مشیر کوئی نہ تھا، سب جی حضوری کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے والے تھے۔ یہی رویہ ان کی سب سے بڑی کمزوری ثابت ہوا اور نتیجے میں 9 مئی سرزد ہو گیا۔ عمران خان کی زبان پھر بھی شعلے اگلنے سے باز نہ آئی۔ نتیجے کے طور پر وہ گرفتار ہوئے اور پچھلے چودہ ماہ سے جیل میں بند ہیں۔ کچھ سیکھنے کی بجائے جیل میں رہ کر بھی انہوں نے علی امین گنڈا پور کے ذریعے وفاق پر بار بار چڑھائی کی۔ ایس سی او کانفرنس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی بھی پوری کوشش کی گئی مگر حالات کی سنگینی اور اپنے انجام سے ڈر کر ورکرز اور لیڈرشپ نے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا۔ آج عمران خان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ دھڑے بندی واضح ہو چکی ہے۔
مولانا فضل الرحمان آج اپنی معاملہ فہمی اور دھیمے مزاج کے سبب ملکی سیاست کا مرکز ہیں۔ عمران خان کی زبان انہیں بتدریج قومی سیاسی دھارے سے باہر لے جا رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button