Column

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

تحریر : صفدر علی حیدری
دو سال قبل مجھے اپنے ایک دوست کے اسکول میں پیف کے ایک افسر سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ اس کے ہاتھ ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جس میں اسکول اساتذہ کے کوائف درج تھا ۔ مجھ سے ان صاحب نے جب تجربے کا سوال کیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی ۔ میرے کوائف میں ایم اے اردو کے ساتھ ساتھ بی ایڈ بھی درج تھا جو کہ ایک پروفیشنل ڈگری ہے ۔ مجھے اس سے اس سوال کی توقع نہ تھی ۔ مجھے تو لگتا تھا کہ وہ مجھ سے میری تنخواہ پوچھے گا ۔ اس کوائف نامہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا آخری کالم خالی تھی ۔ یہ تنخواہ کا خانہ تھا ۔ مگر افسوس اس کو بھرنے کی زحمت گوارہ نہ کی گئی تھی ۔ میں امید کر رہا تھا کہ وہ صاحب مجھ سے میری تنخواہ پوچھیں گے اور پرنسپل سے بھی جواب طلب کریں گے کہ وہ آخری کالم خالی کیوں ہے ؟ مگر انھیں تو شاید اس سے کوئی سروکار ہی نہ تھا کہ اساتذہ کو تنخواہ مل بھی رہی ہے یا نہیں ۔ نہ ان صاحب کو اس بات کی پروا تھی نہ پیف کو اس بات کی فکر ہے کہ کسی استاد کو کتنا تنخواہ دی جا رہی ہے
مہینہ ختم ہوا تو مجھے آٹھ ہزار تنخواہ دی گئی ۔ جب میں نے اعتراض کیا تو پتہ چلا اکثر اساتذہ کو چار ہزار دی جاتی ہے ، دو ایک کو پانچ ہزار اور میری تنخواہ سب سے زیادہ تھی ۔ اگلے ماہ کی تنخواہ مجھے دو ماہ بعد ملی کہ ادارے کو پیف کر طرف سے پیمنٹ نہیں آئی تھی ۔ میں نے اس واقعے سے متاثر ہو کر ایک کالم لکھا ’’ پیف کی چیرہ دستیاں ‘‘جس میں میں نے پیف کی ہٹ دھرمی کا حال لکھا تھا ۔ ظاہر میں یہی کر سکتا تھا ۔ فیصلے کا اختیار میرے پاس ہوتا تو میں بیک جنبشِ قلم ان کی تنخواہ مزدوروں کے برابر کر دیتا ۔ حکومت ہر بار بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کرتی ہے تو ساتھ ہی مزدور کی تنخواہ کا بھی اعلان کرتی ہے ۔ آج تک پتہ نہیں چلا کہ مزدور کو وہ پیسے دے گا کون ؟، حقائق یہی بتاتے ہیں کہ مزدور کو اتنا رقم نہیں ملتی جتنا حکومت وقت اعلان کرتی ہے۔
میرا ایک معصومانہ سوال ہے کہ کیا استاد کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ کیا اس کے مسائل نہیں ہیں ۔ کیا آپ اسے مزدور نہیں سمجھ سکتے ۔ اگر اسے مزدور ہی سمجھ لیا جائے تو پھر اس کا بھی تو حق ہو گا کہ کم از کم نیم سرکاری اداروں میں اسے ایک مزدور کے برابر تنخواہ دی جائے ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں اساتذہ پرائیوٹ اداروں میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ پیف کے اسکولز میں بھی ان کی تعداد لاکھوں میں ہی مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے وہاں ان کو انتہائی معمولی تنخواہ دی جاتی ہے۔ خاص پور پر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں ان کو بہت کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ فی میل اسٹاف کا حال اور بھی برا ہے ۔ دس دس سال سے ایک ہی ادارے میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ پانچ ہندسے کو نہیں چھو پاتی ۔ پرائی ویٹ تعلیمی اداروں کا حال کچھ مختلف نہیں ہے ۔ اور تو اور فرینچائزی اسکولز میں بھی اچھی تنخواہیں نہیں دی جاتیں ۔ وقت پر بھی نہیں ملتی۔ پیف کا حال یہ ہے کہ وہ تین تین ماہ بعد پیمنٹ جاری کرتا ہے ۔ اساتذہ کو معمولی تنخواہ کے لیے غیر معمولی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پیف کی پیمنٹ نہ آتے تو وہاں بھی کئی کئی ماہ انتظار کروایا جاتا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ پیف کا ادارہ ہر ماہ پیمنٹ بھی نہیں دے پاتا اور اس کا برا اثر اساتذہ پر پڑتا ہے کہ انھیں اپنی معمولی سی تنخواہ کے لیے کئی کئی ماہ انتظار کی سولی پہ لٹکنا پڑتا ہےمیں نے اپنے اس کالم میں پیف کے ادارے کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ لوگ صرف بچوں کا سوچتے ہیں یا پھر اسکول مالکان کا ، آپ کو اساتذہ کے لیے بھی سوچنا چاہیے ۔ زیادہ نہیں تو کم از کم دس ہزار ماہانہ اپ لوگ ادا کریں اور دس ہزار اسکول مالکان ادا کریں۔ یوں انھیں ایک معقول تنخواہ ملنے لگے گی ۔ اور یہ دس ہزار آپ مالکان کو نہ دیں بلکہ ہر ماہ اساتذہ کے بنک اکانٹ میں ٹرانسفر کر دیا کریں۔ کم از کم اس سے یہ تو ہو گا کہ ہر ماہ استاد کو اس کی تنخواہ مل جایا کرے گی ۔ پیف اسکول مالکان پر بھی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا ۔ ان کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ چاہے پیف سے ان کو پیمنٹ ملے یا نہ ملے وہ اساتذہ کر پر ماہ تنخواہ دینے کے پابند ہوں گے ۔ اس طرح اساتذہ کرام کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک بند ہو جائے ۔ وہ مطمئن ہو کر پہلے سے بہتر انداز سے پڑھا سکیں گے۔
پیف اسکولوں کے مالکان کا رویہ بھی اساتذہ کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہے ۔ اگر ان کو کسی وجہ سے پیمنٹ نہیں ملتی تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ وہ اساتذہ کی تنخواہیں روک لیں ۔ اساتذہ ان کے ہاں کام کرتے ہیں ، ان کے پارٹنرز نہیں ہے کہ پیمنٹ ملنے کا انتظار کریں پھر ان کو اسکول کے فنڈ سے حصہ ملے گا۔ دو تین ماہ بعد بھی تو ان کو ان کی طے شدہ تنخواہ ہی ملے گی ۔ امید کرتے ہیں کہ پیف کا ادارہ اس تجویز پر ہمدردی سے نہ صرف غور کرے گا بلکہ وہ اساتذہ کے لیے آدھی تنخواہ کا انتظام کر کے یہ ثابت کرے گا کہ اسے بھی اساتذہ کی مجبوریوں کا نہ صرف یہ کہ احساس ہے بلکہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ میرے دوست مجید احمد جائی ملتانی ایک نامور ادیب ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ سیکڑوں کتابوں پر تبصرے لکھ چکے ہیں۔ بیماری اور غربت سے لڑ کر ایم فل تو کر لیا مگر تاحال سرکاری ملازمت سے محروم ہیں ۔ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں معمولی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ آج ان سے بات ہوئی تو انہوں نے نے اسکول مالکان کے رویے پر دکھ کا اظہار کیا ۔ مجھے یہ کالم لکھنے کا خیال ان سے بات چیت کر کرے آیا۔ سو کالم لکھ ڈالا۔
اقبالؒ نے ایک صدی قبل کہا تھا:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
آج بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں بلکہ اور زیادہ مشکل ہو گئے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button