Column

مارتے ہیں رونے بھی نہیں دیتے

تحریر : سیدہ عنبرین
وقت کی گرد تلے واقعات و حادثات کی تفصیل مورخین کے ذریعے آنے والے وقت اور آنے والی نسل تک پہنچتی ہے، ہر معرکے، واقعے اور حادثے میں تین مورخین اہم ہوتے ہیں۔ ایک مورخ فاتح کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، دوسرا مفتوح کے ساتھ جبکہ تیسرا مورخ کسی فریق کے ساتھ نہیں۔ حق و سچ کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے، حق و سچ کے ساتھ کھڑے مورخین تاریخ میں اس لئے زندہ رہتے ہیں کہ حق و سچ کے ساتھ کھڑا ہونا خالق کائنات کو بے حد پسند ہے۔
پاکستان کے حوالے سے آئینی سانحات کی تاریخ میں حق و سچ کے ساتھ کھڑا مورخ لکھے گا کہ حکمران جماعت کے دفاع کیلئے ہمیشہ پیش پیش وزیر دفاع جناب خواجہ آصف نے ایک سے زائد ٹی وی اینکرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ صاحب کو سینیارٹی کے اصول کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنا دیا گیا اور انہوں نی اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد الیکشن فروری 2024ء کو کھول دینے اور اس کے آڈٹ کا حکم دے دیا تو ہماری حکومت ختم ہو سکتی ہے، ہم سب گھر جا سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں انتخابی دھاندلی کا پول کھل جائے گا ، الیکشن کالعدم قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کی ضرورت اس لئے پیش آئی۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعے حکومت کے تن مردہ میں نئی روح پھونک کر اسے مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا جا سکتا تھا۔ آئینی ترمیم کیلئے درکار اکثریت موجود نہ تھی، یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں میں تھا، حکومت اتحادیوں کے ساتھ ملنے کے باوجود یہ اکثریت حاصل نہ ہو سکتی تھی، لہٰذا یہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے جو متبادل طریقے اختیار کئے گئے ان کے بارے میں ایک اتحادی جماعت کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمٰن کے در پر سب جھکتے نظر آئے، وہ خلوص نیت کے ساتھ اس مشن پر کام کرتے نظر آئے، انہوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا، جنہیں دور کرنے کیلئے دو بڑی جماعتوں کے سربراہ ان پر صدقے وارے ہوتے نظر آئے، مجوزہ آئینی ترمیم میں ابتدا میں پچاس شقیں رکھی گئی تھیں، جو بعد ازاں کم ہو کر چھبیس رہ گئیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے علاوہ دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں سے رابطہ قائم کر کے انہیں اس آئینی ترمیم کیلئے رضا مند کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک طرف تو گفتگو جاری تھی دوسری طرف ایک ’’ غیر سیاسی ٹیکنالوجی‘‘ کے تحت ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کو ساتھ ملانے کا پراجیکٹ شروع کر دیا گیا۔ یہ ہے سیاست کا انداز جیسے عبادت کہا جاتا ہے، آئینی ترمیم کی راہ میں کچھ رکاوٹیں نظر آئیں تو پیپلز پارٹی کے سربراہ نے حیدر آباد میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد اسلام آباد آتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اگر دیگر اپوزیشن جماعتیں ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے رضا مند نہ بھی ہوئیں تو ہم متبادل طریقوں سے یہ ترمیم منظور کرا لیں گے۔ افہام و تفہیم کی کوششیں جاری تھیں کہ اچانک مولانا فضل الرحمٰن میڈیا کے سامنے آ گئے۔ ان کے چہرے سے عیاں ہوتا تھا کہ وہ سخت غصے اور صدمے کی حالت میں ہیں، انہوں نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے وہ بات کہی جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی، انہوں نے نہایت دکھ سے بتایا کہ ایک طرف تو ان سے حکومت ساتھ دینے کی بات کر رہی ہے، دوسری طرف ان کے ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کو دھمکیاں دے کر، لالچ دے کر ساتھ ملایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت میں فاروڈ بلاک کیلءے کی جانے والی کوششوں سے پردہ اٹھایا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت نے بدمعاشی نہ چھوڑی تو ہم بھی اس کا جواب بدمعاشی سے دے سکتے ہیں، ان کی باتیں اور حکومت کا طرز جان کر سیاسی میدان میں ارتعاش پیدا ہوا۔ مولانا نے اعلان کر دیا کہ اگر حکومت نے اپنا طرز عمل نہ بدلا تو وہ آئینی ترمیم کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ اس اعلان کے بعد حکومت میں شامل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے راہنما ایک مرتبہ پھر بھاگے بھاگے ان کے دروازے پر انہیں منانے پہنچے، ابھی یہ ارتعاش ختم نہ ہوا تھا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ راہنما جناب اختر مینگل بیرون ملک سے ہنگامی طور پر پاکستان پہنچے، انہوں نے میڈیا پر آ کر اعلان کیا کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والی دو شخصیات کو اغوا کیا جا چکا ہے تاکہ ان سے ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالوایا جا سکے، وہ پاکستان پہنچ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت اس آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں جنت میں پہنچانے کا راستہ بھی دکھائے تو وہ اس کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، کیونکہ 73ء کا آئین انہیں کچھ نہیں دے سکا۔ انہوں نے دھن، دھونس اور اغوا ٹیکنالوجی کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
دو روز بعد مولانا فضل الرحمٰن کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی اپوزیشن جماعت نے میڈیا کے سامنے بتایا کہ ان کی جماعت کے ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کو اسی جاری سکہ رائج الوقت ٹیکنالوجی کے زور پر آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ان کے ممبران ان کے رابطے میں نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی صاحب عقل و فہم سینیٹر مشاہد حسین نے صورتحال کے بارے میں ایک جملے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا اور خوب کہا کہ آئینی ترمیم اس طرح ہو رہی ہے جیسے بینک ڈکیتی کی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن ایک مرتبہ پھر میڈیا کے سامنے آئے تو ان سے سوال کیا گیا آپ ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے راہیں ہموار کر رہے ہیں، اپنی جماعت اور اس کے پارلیمنٹیرینز کے حوالے سے آپ کے تحفظات دور ہوئے یا نہیں، تو انہوں افسردہ لہجے میں جواب دیا ان کے تحفظات دور نہیں ہوئے۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کے سربراہ جناب بلاول بھٹو نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کو پیشکش کی وہ اس ترمیم کو بذات خود ایوان میں پیش کریں، جب یہ تجویز پیش کی گئی تو کیمروں نے مولانا کے چہرے کا کلوز اپ دکھایا ان کے چہرے پر طاری بے چارگی وہ تمام ان کہی کہانیاں سنائی گئی جو شاید وہ سنانے کا حوصلہ جمع کر رہے تھے، کہانی یوں تھی، مارتے ہیں رونے بھی نہیں دیتے ۔ تاریخی ترمیم کی کہانی یہ تھی۔

جواب دیں

Back to top button