سپریم کورٹ کے فیصلے کے سیاست پر اثرات

تحریر: رانا اقبال حسن
سپریم کورٹ اپنے ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے چکی ہے۔ تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت نئی زندگی مل چکی ہے، جس کے بعد قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کے ذریعے مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔ حکومت کو اس فیصلے کے بعد سخت ہزیمت کا سامنا ہے اور الیکشن کمیشن کے خلاف یہ فیصلہ ایک چارج شیٹ کی صورت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے، اس لیے اس فیصلے کے فورا بعد تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی داغ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختلافی نوٹ کے باوجود آٹھ ججوں نے نہ صرف تحریک انصاف کو ایک پارلیمانی سیاسی جماعت کے طور پر مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد امیدوار ڈیکلئیر کرنے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد لگتا ہے کہ حکومت کے مستقبل
کے پلان ناکام ہوتے نظر آتے ہیں۔ حکومت سوچ رہی تھی کہ وہ دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر ایسی ترمیم لے آئے گی جس سے اس کی حکومت اگلے کئی سال کے لئے مضبوط ہو جائے گی تاہم اب تحریک انصاف جو اپنی قیادت کی نااہلی اور لاعلمی کی وجہ سے ایک مردہ گھوڑا بن چکی تھی اور اس کی جگہ پارلیمان میں سنی اتحاد کونسل نے لے لی تھی، ازسر نو اس میں جان پڑ چکی ہے۔ اب پارلیمان میں تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی کے طور پر آنے کے لئے تیار ہے۔ اگرچہ نو مئی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت وکلا کے ہاتھ میں ہے مگر وہ قانونی باریکیوں کو سمجھنے میں ناکام رہے اور اس نکتے کو نہیں سمجھ سکے کہ انتخابی نشان سے محروم ہونا اس کے امیدواروں کو آزاد نہیں بناتا بلکہ امیدواروں سے وابستگی سرٹیفکیٹ لے کر وہ ایک ڈیکلئریشن کے ذریعے اپنے امیدوار نامزد کر سکتی ہے۔ کاغذات کی سکروٹنی کے دوران یہ بھی پایا گیا کہ اسی ارکان میں سے
اکتالیس جیتے ہوئے امیدواروں کا وابستگی نامہ ہی ساتھ لف نہ ہے ۔ اس میں الیکشن کمیشن کی بدنیتی بھی شامل ہے جس کے ذریعے تحریک انصاف کو کنفیوز کیا گیا مگر سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اس چیز کو بھانپتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن کی بد نیتی سے یہ ساری گڑ بڑ ہوئی ہے ایک بہت جامع قسم کا فیصلہ دیا تاکہ الیکشن کمیشن اس معاملے میں مزید کوئی گڑ بڑ نہ کر سکے ۔ الیکشن کمیشن کے پاس اب کوئی دوسرا رستہ نہیں چھوڑا گیا سوائے پی ٹی آئی کو اپنے حصے کی مخصوص سیٹیں دینے کے۔ مگر اس کے باوجود لگتا ہے الیکشن کمیشن اس معاملے میں لیت و لعل کا شکار ہے،
اگرچہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد کا اعلان کیا ہے مگر ساتھ ہی اپنی لیگل ٹیم کو اس فیصلے پر عملدرآمد میں درپیش رکاوٹوں کو شناخت کرنے کا کام دیا ہے جو کہ کافی مضحکہ خیز ہے۔
مسلم لیگ نون کو اس فیصلے سے اگرچہ زک پہنچی ہے مگر اس کی حکومت کو اس فیصلہ سے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے اس کی پارلیمان میں اکثریت برقرار ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بدستور اس کے ساتھ کھڑی ہیں ۔ مگر اس حقیقت کے باوجود پی ایم ایل این کی صفوں میں عجیب سی سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے اور ان کے لیڈر سپریم کورٹ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسی دوران حکومت نے پہلے تحریک انصاف کو بین کرنے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی عمران خان اور عارف علوی کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کرنے کا عندیہ بھی دیا مگر حکومت کو اس سلسلے میں اندرونی و بیرونی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ امریکی ترجمان نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اس سے پہلے امریکی ایوان نمائندگان ایک قرارداد کے ذریعے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ اس طرح عدلیہ سے ایک خواہ مخواہ کی محاذ آرائی کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، اب الیکشن ایکٹ میں کچھ ترامیم لا کر سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے فیصلے کو سبوتاژ کرنے کا ارادہ ہے، جس سے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں محاذ آرائی کا ماحول ہوگا۔ سیاسی اور قانونی محاذ پر شکست کے بعد اب پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے قانون سازی کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی جو اپنے آپ کو جمہوری قدروں کی چیمپئن کہتی ہے ایک بی ٹیم کی طرح ہر قسم کی معاونت کے لئے دستیاب ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست اور معیشت کی حالت زار دن بدن بگڑتی جا رہی ہے، مرکز گریز طاقتیں بھی میدان میں آ چکی ہیں، عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں عمران خان کی طرف سے جیل سے مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ حکومت اور طاقتور حلقوں کو چاہئے کہ وہ ملکی مفاد میں ان سے مذاکرات کریں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرائیں تاکہ ملک استحکام کی طرف جائے، معیشت میں بہتری آئے اور علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروپوں کو شکست دی جا سکے۔





