26ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ: دو تہائی اکثریت کے لیے کتنے ووٹ درکار اور موجودہ نمبر گیم

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ حکومتی اتحاد کے پاس مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کے لیے ’نمبرز پورے ہیں، اس کے باوجود ہماری کوشش ہے مکمل اتفاق رائے سے آگے بڑھا جائے۔‘
ادھر تحریک انصاف نے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی مجوزہ آئینی کی مخالفت کی ہے۔
قومی اسملبی میں حکومتی اتحادی اراکین کی تعداد 215 ہے جبکہ آئینی ترمیم کے لیے درکار نمبر 224 ہیں۔ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحادی اراکین میں مسلم لیگ ن کے پاس 111، پیپلزپارٹی 70، ایم کیو ایم پاکستان 22، ق لیگ 5 اور استحکام پاکستان پارٹی کے چار اراکین شامل ہیں جبکہ نیشنل پارٹی، ضیا لیگ اور بی اے پی کا ایک ایک رکن بھی حکومت کے پاس ہیں جس کے بعد مجموعی تعداد 215 بنتی ہے۔
تاہم آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آٹھ ووٹ اہمیت کا حامل ہیں، حمایت ملنے پر یہ تعداد 223 تک پہنچ جاتی ہے۔
اس کے باوجود حکومی اتحاد کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ایک اور اور ووٹ کی ضرورت ہوگی۔ ایسے میں حکومت کی توجہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی جانب ہے جن کی تعداد آٹھ ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سنیچر کی شب پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ اُن کے پاس قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اراکین کی تعداد مکمل ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور ایم کیوایم کے تین ارکان کے ساتھ ساتھ حکومتی بینچز پر دو آزاد سینیٹرز کی موجودگی کے بعد آئینی ترمیم کی حمایت میں 52 ووٹ بنتے ہیں۔
اپوزیشن بینچز پر اس وقت جے یو آئی کے پانچ، اے این پی کے تین جبکہ مسلم لیگ ق، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک، ایک رکن موجود ہے۔







