Columnمحمد مبشر انوار

سپورٹس مین سپرٹ

محمد مبشر انوار(ریاض)
شریف خاندان کی پاکستانی سیاست میں آمد 1981ء میں ہوئی جبکہ پیر صاحب پگاڑانے غالبا نوے کی دہائی میں نواز شریف کے متعلق رائے دیتے ہوئے کہا کہ شریف مجبوری میں پیر پکڑتے ہیں جبکہ طاقت میں گلا پکڑتے ہیں،یہاں گلا پکڑنے سے مراد دبوچنا بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح کا رویہ طاقت میں شریف خاندان کا سیاست میں روزاول تھا،آج اس سے کہیں زیادہ نظر آ رہا ہے۔ مقتدرہ کی بیساکھیوں سے اقتدار کی منزلیں طے کرتے،شریف خاندان کو ایک وقت میں مقتدرہ نے اس قدر مضبوط کر دیا کہ انہیں دوتہائی اکثریت تک سے نواز دیالیکن بعد ازاں ’’ امیر المومنین ‘‘ بننے کی خو نے یہ ساری اکڑفوں ایسی ختم کی کہ پھر تقریبا ایک دہائی تک شریف خاندان پاکستان سے باہر رہا ماسوائے حمزہ شہباز کہ جنہیں بطور ضمانت پاکستان چھوڑا گیا تھا۔ تاہم اس عرصہ میں حمزہ شہباز کی سیاسی نشو ونما کے علاوہ ان کا جماعت پر کنٹرول بھی بہرطور بہت خوب رہا اور آج اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ حمزہ شہباز کی جماعت پر گرفت نئی نسل میں نسبتا زیادہ ہے،جبکہ سیاسی اثرورسوخ بھی حمزہ زیادہ رکھتے ہیں۔یہ الگ بات کہ فیصلہ کن حیثیت آج بھی بہرطور میاں نواز شریف ہی کو حاصل ہے اور شہباز فیملی کسی بھی سیاسی پوزیشن کے حصول میں نواز شریف کی رضامندی کو ترجیح دیتی ہے،خواہ درون خانہ کتنی ہی چپقلش ہو،رنجش ہو ،لیکن سیاسی میدان میں اس کا اظہار کم ہوتا ہے اوربیشتر اوقات نواز شریف معاملات کو سنبھال لیتے ہیں ۔البتہ سیاسی میدان میں شریف خاندان کا یہ ریکارڈ بھی واضح ہے کہ بالعموم اہم عہدوں پر ان کے خاندان کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور کسی دوسرے سیاسی ورکر کے نصیب میں خال ہی کوئی اہم عہدہ تفویض ہوتا ہے،جسے کوئی عہدہ نصیب ہو اسے اس کی خوش نصیبی کہا جا سکتا ہے یا پھر شریف خاندان کی مجبوری وگرنہ یہ ممکن نہیں کہ اہم سیاسی عہدے خاندان سے باہر تقسیم ہوں۔ اس طرح کی بندر بانٹ کے بعد،گورننس کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے،یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ آج کا دور اس کی واضح مثال ہے کہ ملک میں گورننس کی کیا حالت ہو چکی ہے لیکن ارباب اختیار کو اس سے کوئی غرض دکھائی نہیں دیتی کہ وہ اس وقت بھی صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے بروئے کار ہے۔ تاہم شریف خاندان کے متوالوں کے نزدیک،حالیہ اقتدار سے قبل رائے یہ رہی کہ شریف خاندان کو اقتدار فقط اس لئے ملنا چاہئے کہ وہ ’’ تجربہ کار ‘‘ ہیں،البتہ تجربے کے نتائج اس وقت سامنے آ رہے ہیں کہ کس طرح ملک میں افراتفری و امن و امان کے حالات ہیں،ایسے میں ملکی معیشت ترقی معکوس جبکہ حکمران خاندانوں کی معیشت براہ راست ترقی پر گامزن ہے۔حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ عالمی وبا کے دوران جب ملکی معیشت کی نمو چھ فیصد تک پہنچ چکی تھی،متوالوں کی طرف سے معاشی تنزلی کو اس کا شاخسانہ قرار دیا جانا ہے،گو کہ اس وقت معیشت کی ترقی کے کئی ایک عنصر موجود تھے کہ دنیا بھر میں صنعتی پہیہ رکا ہوا تھا اور دیگر ممالک کی برآمدات بند تھی،پاکستانی صنعت کے لئے نعمت غیر مترقبہ تھی اور صنعت متحرک ہو چکی تھی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صنعتکاروں کا یہ خاندان،اس تحرک میں مزید تیزی لاتا مگر رجیم چینج کے بعد ،آقائوں کی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے،صنعتی پیداوار میںآسانیوں کی بجائے،مشکلات کھڑی کی گئی جبکہ نوازشات کی آڑ میں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے قرضوں کی طرف توجہ زیادہ مرکوز رکھی گئی۔
بہرکیف دیگر سیاسی امور میں جہاں شریف خاندان اور اس کے جان نثار ووٹرز کو یہ علم تھا کہ سیاسی میدان میں قبل از انتخابات کئے گئے اقدامات کے باوجود،وہ انتخابات ہار چکے ہیں،اس کے باوجود بیشتراراکین اسمبلی اپنی شکست کو جاننے کے بعد بھی ،فارم 47پررکن اسمبلی بنے بیٹھے ہیں۔اپنے اس اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے،کیا کیا جتن کئے جا رہے ہیں،ساری قوم اس سے بخوبی آگاہ ہے کہ ایک طرف الیکشن ٹربیونل پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں تو دوسری طرف اپنی کامیابی کو قائم رکھنے کے لئے قوانین میں مسلسل ردوبدل کیا جا رہا ہے اور یوں تاخیری حربوں کے باعث ،وقت حاصل کیا جا رہا ہے۔ گو کہ ماضی میں بھی کئی ایسے واقعات موجود ہیں کہ حکمران جماعت نے ،اپنے اراکین اسمبلی کو بعینہ تاخیری حربوں اور حکم امتناعی پر طرح مدت پوری کروائی ہے ،جس کی ستائش خیر کسی بھی صورت نہیں کی جا سکتی کہ اس سے جمہوری اقدار کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔ تاہم یہ اعتراض اور تنقید ہر سیاسی جماعت پر ہے کہ جو بھی حکمران رہی اور اس نے ان قوانین کو تبدیل نہیں کیااور جمہوریت کی گردان جاری رکھی ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے فی الفور ایسے قوانین کو تبدیل کیا جاتا اور کسی بھی انتخابی عذرداری کا نتیجہ ،غیرجانبداری سے ،بلا کسی تاخیری حربے کے،دیا جاتا اور دھاندلی سے منتخب ہوئے کسی بھی رکن اسمبلی کو گھر بھیجا جاتا،لیکن صد افسوس کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے ایسا جمہوری رویہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کے برعکس،یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کسی غیر منتخب،غیر سیاسی طاقتور شخصیت کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے لئے کتنی عجلت میں متفقہ طور پر قانون سازی کی گئی لیکن پارلیمان کے تقدس کو بچانے اور عوامی نمائندوں کی ساکھ بحال کرنے کی خاطر ہمیشہ قانون سازی میں غفلت برتی گئی۔دائروں کے اس سفر میں آج بھی پارلیمان یہی کرنے پر مصر ہے اور کوشش ہے کہ کسی بھی طرح آئینی ترمیم کی جائے،جس میں عدلیہ کو ایک مرتبہ پھر اپنے زیر اثر کر کے،ججز کی تعیناتی،تقرری،ترقی و تبادلوں کو اپنی گرفت میں کیا جا سکے۔پس پردہ مقاصد عیاں ہیں کہ آئین و قانون کی بالادستی صرف اسی صورت میں ہوگی اگر اس میں اپنا مفاد ہے وگرنہ آئین و قانون کو ہی بدل دیا جائے،خواہ اس کی گنجائش جیورس پروڈنس میں ہو یا نہ ہو۔
اس دھینگا مشتی میں جو صورتحال لاہور کے پنجاب گروپ آف کالجز میں ہونے والے واقعہ کے بعد ہو چکی ہے،اس پر جس طرح پردہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے،وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجوداس معاملے کو بزوردبایا جا رہا ہے۔ صرف اس ایک واقعہ کو مثال سمجھتے ہوئے دیگر امور میں شریف خاندان کے رویوں کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جب بے نظیر بھٹو سیاسی حریف تھی،ان کو بھی اسی طرح مقدمات میں پھنسایا جاتا رہا تا کہ وہ اپنی سیاست نہ کر سکیںاور آج بھی اسی روش پر گامزن شریف خاندان تحریک انصاف کو مقدمات میں پھنسا کر ،اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ عدالتی نظام کی حالت یہ ہے کہ نواز شریف کے لئے ائیرپورٹ پر ،نظام دست بستہ حاضر ہو کربریت کی تمام کارروائی پوری کرتا ہے،صرف نواز شریف ہی کیا،ان کے سمدھی کے لئے بھی آسانیاں پیدا کی جاتی ہیںلیکن حریفوں کے لئے یہی عدالتی نظام ایسا ہے کہ حریف اس میں سانس تک نہیں لے سکتے۔عمران خان نے اپنے دورہ امریکہ میں نواز شریف سے ائیرکنڈیشن اتروانے کا کہہ کر،شریف خاندان کی اسیری بیان کردی تھی کہ شریف خاندان کس طرز کی اسیری جھیل رہا ہے کہ جہاں،ہر طرح کا آرام میسر تھا،کھانے گھر سے بن کر آتے،مہمانوں کی ایک لمبی فہرست جیل حکام کو دی جاتی،اور جب ،جہاں جیسے چاہتے،محفل کا انتظام ہوتا ،کسی ’’ پولیس افسر‘‘ کی یہ مجال نہیں کہ شریف خاندان کے کسی فرد کو انگلی تک لگا سکے،جبکہ دیگر سیاستدانوں کو جس طرح گھسیٹا جاتا رہا،وہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔عمران خان نے تو صرف ائیر کنڈیشنز اتروانے کا کہا تھا لیکن شنید ہے کہ شریف خاندان نے عمران خان کے سیل میں بجلی بھی منقطع کر دی ہے،مشقتی بھی چھین لیا گیا ہے،چہل قدمی کی سہولت بھی لی جا چکی ہے،قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے تا کہ کسی طرح اس کے مؤقف کو توڑا جاسکے لیکن آفرین ہے کہ وہ یہ سب سختیاں مردانہ وار برداشت کرتا دکھائی دے رہاہے اور اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ،جیل کی سختیوں کے متعلق محتاط ترین اندازے کے مطابق فقط شریف خاندان ہی ایسا ہے،جسے جیل کی ایسی سختیاں نصیب نہیں ہوئی ماسوائے زرداری کہ ان کے متعلق بھی حقائق یہی ہیں کہ ان کی اسیری بھی پر تعیش ہی رہی ہے اور بعد ازاں پیپلز پارٹی کے کارکنان کے لئے بھی اسیری برائے نام ہی رہی جبکہ دیگر ہر سیاسی رہنما یا خاندان ایسی سختیوں کو جھیل چکا ہے۔ دعا تو یہی ہے کہ صرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ کوئی بھی شخص/شہری جیل میںمنتقمانہ مقدمات کے باعث، ایسی سختیوں کا سامنا نہ کرے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ شریف خاندان نے سیاست میں جو رویہ اپنا رکھا ہے، اس میں مروجہ اصولوں کے برعکس من پسند اصول طے کرکے کھیلنا کسی صورت بھی سپورٹس مین سپرٹ نہیں کہلا سکتا کہ کسی کھیل میں کامیابی سے پہلے ناکامی کو مد نظر رکھتے ہوئے کھیل میں شامل ہوا جاتا ہے اور کامیابی و ناکامی کا سامنا سپورٹس مین سپرٹ سے ہی کیا جاتا ہے،جو نہ شریف خاندان بلکہ ان کے اتحادیوں میں بھی نظر نہیں آتی۔

جواب دیں

Back to top button