Column

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس اور مسئلہ کشمیر

خان فہد خان
اللہ کی بڑی کرم نوازی ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی اور شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ملک بھر میں مکمل امن و امان کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہ تھا کیونکہ اجلاس سے قبل بہت سی پریشانیاں درپیش تھیں، ایک طرف تحریک انصاف کے احتجاج کی کال نے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچائی ہوئی تھی تو دوسری طرف اجلاس سے چند روز قبل کراچی میں دہشت گردی کے واقعہ نے بہت سے خدشات پیدا کر دیئے تھے لیکن بفضل خدا بہت سے خدشات کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم کا کامیاب اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کے 23ویں سالانہ اجلاس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی۔ اجلاس میں چین کے وزیراعظم لی چیانگ، بیلاروس کے وزیراعظم رومن گولوو چینکو، قازقستان کے وزیراعظم اولزہاس بیکوتینوو، روس کے وزیراعظم میخائل مشوستن، تاجکستان کے وزیراعظم قاہر رسول زادہ، ازبکستان کے وزیراعظم عبداللہ اریپوف، کرغزستان کے
وزراء اور کابینہ کے چیئرمین اکیل بیک جاپاروف، ایران کے وزیر تجارت سید محمد عطابیک اور بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، منگولیا کے وزیراعظم اویون اردین لویسنا اور ترکمانستان کے نائب وزیراعظم راشد میریدوف نے شرکت کی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کے اجلاس کے آغاز پر اپنے افتتاحی کلمات میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ پائیدار ترقی کیلئے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے۔ ہم نے اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور سہولیات فراہم کرنی ہیں۔ معاشی ترقی، استحکام اور خوشحالی کیلئے ملکر آگے بڑھنا ہے۔ ہم عالمی منظرنامہ میں تبدیلی اور ارتقاء کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس میں اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ متحد ہوکر ہم سماجی و اقتصادی ترقی، علاقائی امن و استحکام اور اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر کر سکتے ہیں۔ ہم
تاریخی تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں جہاں تیز تر تبدیلیاں سماجی، سیاسی، معاشی اور سلامتی کے منظرنامہ کو بدل رہی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مستحکم افغانستان تمام رکن ممالک کو بہتر رابطوں کیلئے فائدہ مند تجارتی اور ٹرانزٹ راہ داریاں پیش کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے مستحکم افغانستان بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی برادری کو جہاں انسانی بحران اور معاشی بدحالی کو روکنے کیلئے افغانستان کی عبوری حکومت کی مدد کیلئے درکار مدد فراہم کرنی چاہئے، وہیں اسے افغان عبوری حکومت سے سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرنا چاہئے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ادارے یا تنظیم کے ذریعے اس کے پڑوسیوں کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو۔ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ، عالمی تجارت، ٹیکنالوجی کے نظام اور عالمی مساوات کو فروغ دینے کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہی۔ وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے متبادل ترقیاتی فنڈنگ میکانزم بنانے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تعطل کا شکار مختلف ترقیاتی اقدامات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اجلاس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی اپنی ذمہ داری نبھائے، مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کیلئے آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ وزیراعظم نے ایس سی او رہنمائوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر ہم غزہ میں حالیہ جاری نسل کشی کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ عالمی برادری کو بربریت روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کیلئے آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے جس کی سرحدیں 1967ء سے قبل کی بنیاد پر ہوں اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت خاصی اہمیت کی حامل تھی۔ دراصل اجلاس سے کچھ دن پہلے تک بھارت کی اس اجلاس میں شرکت مشکوک تھی لیکن بھارت نے اپنے وزیر خارجہ کو اجلاس میں بھیج کر اچھا تاثر قائم کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ کی موجودگی میں وزیراعظم پاکستان کے خطاب پر پاکستانی اپنی نظریں مرکوز کئے ہوئے تھے، مجھ سمیت ہر پاکستانی امید لگائے بیٹھا تھا کہ میاں شہباز شریف مسئلہ کشمیر پر واضح موقف اپناتے ہوئے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر پر بات کریں گے۔ لیکن مجال ہے کہ میاں صاحب نے کشمیر یا کشمیریوں کیلئے لفظ بھی بولا ہو۔ یوں تو ہم اس اجلاس کے کامیاب انعقاد پر حکومت وقت کو خوب کریڈٹ دے رہے لیکن میاں صاحب مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر آپ نے پاکستانیوں سمیت کشمیریوں کے جذبات کو مجروح کیا اور بھارت کو خوش کر دیا۔ بھارت تو پہلے ہی کہہ چکا کہ کشمیر ہمارا ہے اور پاکستان اس مسئلہ سے آگے بڑھ کر تعلقات قائم کرے تو میاں شہباز شریف صاحب آپ بتائیں کہ کیا اب ہم کشمیر کو بھول جائیں یا آپ بھول گئے تھے۔

جواب دیں

Back to top button