Column

ہانیہ کے بعد یحییٰ سنوار بھی۔۔!

خنیس الرحمان

ابھی ہم اسماعیل ہانیہ کو نہیں بھولے تھے جنہیں تین ماہ پہلے شہید کر دیا گیا تھا۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد حماس کی جانب سے یحییٰ سنوار کو مقرر کر دیا گیا۔ 17اکتوبر کے روز عالمی ذرائع ابلاغ پر حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت کی خبر گردش کرنے لگی۔ حماس کی جانب سے 18اکتوبر جمعہ کے روز ان کی شہادت کی تصدیق کردی گئی۔ یحییٰ سنوار اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رفح میں موجود تھے، جس کی اطلاع اسرائیلی فوج کو ملی اور ان کا انہوں نے محاصرہ کیا، اس دوران یحییٰ سنوار کے دو ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا اور اسرائیلی فوج نے اپنا ڈرون عمارت میں بھیجا جس میں یحییٰ سنوار زخمی نظر آرہے تھے، انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا اور اسے معمول کی کارروائی سمجھ کر واپس چلے گئے۔ اگلے روز جب وہ اس علاقے میں پہنچے تو انہیں ایک لاش یحییٰ سنوار سے مشابہ دکھائی دی، جس پر تینوں
لاشوں کو اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے انہیں اسرائیل بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس سے حماس کا ٹریپ سمجھ کر انہوں نے فرانزک کیلئے انگلی کاٹ کر اسرائیل بھیجی۔ جمعرات کو فرانزک کی رپورٹ میں اسرائیل نے تصدیق کرکے ان کی لاش کو اسرائیل بھجوا دیا۔ یحییٰ سنوار سے روزانہ پڑھے جانے والے اذکار کا کتابچہ، تسبیح، گھڑی، ٹافیاں، ٹیپ اور اخراجات کیلئے 1600اسرائیلی شیکل ( 430ڈالر) ملے تھے۔ ان چیزوں کے علاوہ یحییٰ سنوار سے ان کے زیر استعمال کلاشنکوف، دو میگزین، ہینڈ گرنیڈ رکھنے والی فوجی بیلٹ اور دیگر فوجی سامان بھی ملا تھا۔
یحییٰ سنوار سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کی جانب سے ہونیوالے حملے کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر
جانے جاتے تھے اور اسرائیلی فوج کو انتہائی مطلوب تھے۔ ایک سال سے جس شیر کی ان کو تلاش تھی وہ عام حملے میں شہید کر دیئے گئے۔ حماس کیلئے یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں تھا، پہلے حماس کے فکری رہنما اور پہلے قائد احمد یاسین کو شہید کیا گیا جوکہ معذور تھے، جنہوں نے فلسطین کے مزاحمتی حلقوں میں روح پھونکی اور فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی غاصبوں کے سامنے سینہ تان کر لڑنے کا سلیقہ سکھایا۔ اس کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو شہید کیا گیا اور ان کے بعد اسماعیل ہنیہ کی تین ماہ پہلے شہادت اور اب یحییٰ سنوار۔
رب کریم نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: ترجمہ، (اہل ِایمان میں وہ جواں مرد لوگ بھی ہیں جنہوں نے سچا کر دکھایا وہ عہد جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا پس ان میں سے کچھ تو اپنی نذر پوری کر چکے اور ان میں سے کچھ انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے ہرگز کوئی تبدیلی نہیں کی۔) الاحزاب: 23
19اکتوبر 1962کو خان یونس کے ایک کیمپ میں آنکھ کھولنے والے یحییٰ ابراہیم حسن سنوارنے ابتدائی تعلیم خان یونس کے سکول میں ہی حاصل کی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی، انہوں نے 5سال تک یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ کونسل میں خدمات انجام دیں اور پھر کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی رہے۔ یحییٰ سنوار کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ان کی مسلح جدوجہد اور طویل گرفتاری رہی اور پھر 2011میں ڈیل کے تحت اسرائیلی جیل سے رہائی پانے کے بعد غزہ کی ایک مسجد میں ان کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر یحییٰ کا شمار حماس کی مزاحمتی تنظیم کے سرکردہ رہنمائوں میں ہونے لگا۔ ان کی جوانی 1980کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کیلئے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جلد ہی تنظیم کے اندرونی سکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کیلئے جاسوسی کرنیوالوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینی کیلئے ذمہ دار تھا۔
ان کے اس کردار نے انہیں ایک سخت گیر اور غیر مصالحانہ شخصیت کے طور پر متعارف کرایا۔ یحییٰ سنوار کو 1988میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔
انہیں 2011میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی اور 2017میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کیلئے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا، ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔
سنوار کو حماس کی حکمت عملی خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما تسلیم کیا جاتا تھا، ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے تھے اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے پر راضی نہیں ہوتے تھے ۔
یحییٰ سنوار کو حماس کا سربراہ لگانے کے پیچھے اسرائیل کو واضح پیغام تھا، پہلے انہیں سیاسی مفاہمت کے ساتھ مسائل حل کرنیوالے شخص کا سامنا تھا، اب اس سے عسکری شخصیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یحییٰ سنوار کی شہادت فلسطینیوں کے مزید حوصلے بڑھائے گی اور اس جنگ کو فتح کے قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگی ۔
جنگ موتہ میں حضرت زیدؓ بن حارثہ شہید ہوئے تو حضرت جعفر طیارؓ نے لشکر کا عَلم اٹھا لیا۔ وہ شہید ہوئے تو حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے لشکر کا جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ شہید ہوئے تو حضرت خالدؓ بن ولید لشکر کی قیادت کرنے لگے۔ یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ بڑھتا رہے گا۔ احمد یاسین، رنتیسی، ہانیہ اور سنوار کے بعد اگلا حماس سربراہ دشمن کیلئے کانٹوں کی سیج ثابت ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button