Column

غذائی بحران غریب ممالک کی بقا کی جنگ

عمر فاروق یوسفزئی

غذائیت کا تعلق کسی بھی معاشرے کی بنیادی صحت، خوشحالی اور ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ ایک صحت مند معاشرہ ہی ایک مضبوط معیشت اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، آج دنیا میں 400ملین سے زیادہ بچے وہ بنیادی غذائی اجزاء حاصل کرنے سے محروم ہیں جو ان کی صحت مند نشوونما اور ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ یہی محرومی نہ صرف ان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ غربت اور غذائی قلت کے دائمی چکر کو جاری رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں، ہمیں متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک کی اہمیت کو سمجھنے اور اس حوالے سے اجتماعی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ غذائیت کی کمی، خاص طور پر بچوں اور خواتین میں، ایک عالمی بحران بن چکی ہے۔ اس مسئلے کو حل کیے بغیر ترقی کے اہداف کو پورا کرنا ممکن نہیں۔ غذائیت وہ بنیاد ہے جو جسمانی صحت، ذہنی نشوونما، اور معاشرتی ترقی کو تقویت دیتی ہے۔
غذائیت کی کمی نہ صرف جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ غربت کے چکر کو بھی تقویت دیتی ہے۔ جب بچے ابتدائی عمر میں وہ غذائی اجزاء حاصل نہیں کرتے جو ان کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں، تو ان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی کمزور ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے مستقبل میں انہیں معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ غربت کے دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے اور اس غربت کا اثر ان کی آئندہ نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غذائیت کی کمی کو ختم کرنا غربت کے خاتمے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ جب خاندانوں کو مناسب غذائیت فراہم کی جاتی ہے، تو وہ صحت مند اور خوشحال ہوتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان کے بچوں کی تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع بہتر ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک جہاں خوراک وافر مقدار میں دستیاب ہے، اور لوگ ہر وقت بہترین غذائیں کھانے کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ ان مسائل سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں جن کا سامنا غریب ممالک کے عوام کو روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ یہ ممالک اقتصادی طور پر مضبوط اور وسائل سے بھرپور ہیں، لیکن بد قسمتی سے وہ عالمی سطح پر غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھاتے۔ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی بے حسی اور غیر مثر امداد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریب ممالک کے عوام اپنی حالت زار میں کوئی بہتری دیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ بین الاقوامی امداد اور غذائیت کے پروگرامز اکثر غریب ممالک تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں، اور جب کبھی کوئی امداد پہنچتی بھی ہے تو وہ نا کافی ہوتی ہے۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ( یو ایس ایڈ ) نے گزشتہ 60سالوں میں غذائیت کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ دنیا کے مقصد میں دنیا بھر میں غذائیت کی کمی کو دور کرنا، اس کے اسباب کو سمجھنا اور ان کے نقصانات کو کم کرنا ہے۔ اس ادارے نے مختلف ممالک میں ایسے پروگرامز متعارف کروائے ہیں جو خاندانوں کو بہتر غذا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں خود کفیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یو ایس ایڈ کے غذائیت کے پروگرامز صرف خوراک کی تقسیم تک محدود نہیں ہیں، بلکہ وہ ممالک کو مدد فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کو ایسی مہارتیں، اوزار، اور وسائل مہیا کریں جن کی مدد سے وہ اپنے خاندانوں کی صحت، غذائیت، اور غذا میں بہتری لاسکیں۔ یہ خاص طور پر بچوں کی ابتدائی زندگی کے دوران سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب غذائیت کا اثر بچے کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ سال 2023میں یو ایس ایڈ نے غذائیت کے حوالے سے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس کے پروگرامز نے 39ملین سے زائد بچوں اور خواتین تک رسائی حاصل کی، جنہیں مناسب غذا اور صحت کی خدمات فراہم کی گئیں۔ یہ پروگرامز ان بچوں اور خواتین کو براہ راست امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے غذائی مسائل کو خود حل کر سکیں۔ یو ایس ایڈ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، ان پروگرامز کے ذریعے بچوں اور مائوں کی صحت میں بہتری آئی ہے، اور ان کے خاندانوں کو غذائیت کی اہمیت اور صحت مند زندگی کی طرف قدم بڑھانے کا شعور حاصل ہوا ہے۔ یہ پروگرامز نہ صرف جسمانی صحت میں بہتری کا باعث بنے بلکہ ان سے خواتین کو اپنے خاندانوں کی بہتر دیکھ بھال کرنے اور بچوں کی غذائی ضروریات کو سمجھنے میں مدد ملی۔
بچوں کی ابتدائی زندگی میں غذائیت کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب جسم اور دماغ کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے، اور مناسب غذائیت کے بغیر یہ عمل مکمل نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یو ایس ایڈ اپنے پروگرامز میں بچوں کی ابتدائی زندگی کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ ان پروگرامز میں بچوں کو وہ تمام غذائی اجزاء فراہم کیے جاتے ہیں جن کی ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ غذائیت کی کمی کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو سکتے ہیں، اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو آئندہ نسلیں بھی انہی مسائل کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یو ایس ایڈ جیسے ادارے مستقبل کے لیے مضبوط بنیاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں صحت مند، توانا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔
غذائیت کی کمی ایک عالمی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ غذائیت کی کمی صرف جسمانی صحت کو متاثر نہیں کرتی بلکہ یہ معاشرتی ترقی، اقتصادی خوشحالی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ ہو ایس ایڈ کی خدمات نے دنیا کے مختلف حصوں میں لاکھوں خاندانوں کی زندگیوں میں بہتری لائی ہے، لیکن اس مسئلے کا حل عالمی سطح پر اجتماعی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہر بچہ، ہر ماں، اور ہر خاندان وہ غذائی اجزاء حاصل کرے جو ان کی صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ متوازن غذائیت کا فروغ غربت کے خاتمے، بہتر تعلیمی مواقع، اور خوشحال معاشرے کے قیام کا بنیادی ستون ہے۔ ہمیں آج ہی سے اپنی کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ آئندہ نسلوں کو غذائیت کی کمی کے دائمی چکر سے نکال کر ایک روشن اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جا سکیں۔

جواب دیں

Back to top button