Column

موم کی ناک

صفدر علی حیدری

آئین یا دستور کسی حکومت کے لیے قوانین اور اُصولوں کا ایک ایسا مجموعہ ، جو ایک سیاسی وجود کے اختیارات اور کارکردگیوں کو محدود اور متعیّن کرتا ہے۔ بھارتی دستور کسی ملک کا دنیا کا لکھا ہوا سب سے بڑا آئین ہے جس کے انگریزی ترجمے میں 117396الفاظ ہیں۔ جبکہ امریکی دستور دنیا کے کسی ملک کا سب سے چھوٹا دستور ہے۔ میگنا کارٹاہو یا اقوام متحدہ کا 1948ء کا قانون یا حقوق باشندگانِ فرانس یا امریکہ ان سب سے معتبر عالمی منشور اگر کسی نے پیش کیا ہے تو وہ جناب رسالت مآبؐ نے آج سے پندرہ سو سال قبل پیش فرما دیا تھا جس میں تقریبا 120سے زائد دفعات موجود ہیں ۔
درحقیقت ایک آئین ان قواعد کی تعریف بیان کرتا ہے جن پر ریاست کی بنیاد ہوتی ہے ۔ بلکہ اس طریق کار کی بھی تعریف بیان کرتا ہے جس کے ذریعے ملکی قوانین بنتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی امور کو چلانے کے قوانین کو آئین یا دستور کہا جاتا ہے۔ آئین تحریری یا غیر تحریری شکل میں ہو سکتا ۔ جیسا کے امریکی آئین تحریری شکل میں ہے جبکہ برطانوی آئین کو غیر تحریری تصور کیا جاتا ہے ۔ پاکستانی آئین تحریری شکل میں ہے ۔ جہاں تک پاکستان کی آئینی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ تاریخ اتنی روشن نہیں ہے ۔ پاکستان کا وجود اگست 1947میں ہوا جب کہ بدقسمتی سے پاکستان کا پہلا آئین 1956میں سکندر مرزا نے نافذ کیا ۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان بدقسمت ترین ممالک میں کیا جا سکتا ہے کہ جس کے وجود میں آنے کے 9سال تک ریاستی امور بغیر کسی دستور کے چلائے گئے ، اور اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ یہ آئین اپنے وجود کے ٹھیک 2سال 1958میں ملک میں مارشل لاء لگنے بعد کالعدم قرار دے دیا گیا ۔1962میں پاکستان کا دوسرا آئین فیلڈ مارشل ایوب خان نے نافذالعمل کیا جو کہ 1969تک قائم رہا ۔ پاکستان کا تیسرا اور متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں 1973میں بنا جو کہ پچیس آئینی ترامیم کے ساتھ آج تک نافذ العمل ہے ۔
آئین پاکستان میں 7 schedules chaptersہیں جن کو 12حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور آئین پاکستان کے آرٹیکلز کی تعداد 280ہے جن میں پہلے 40آرٹیکلز میں عوام کے حقوق ، اصول حکمت عملی یعنی حکومتی ذمہ داریوں کا ذکر ہے ۔
آئین یقیناَ ایک ایسی بنیادی دستاویز ہے کہ جو کسی ادارے یا فرد کی ملکیت نہیں بلکہ یہ اک ایسی دستاویز ہے جس کو عوام کی ملکیت کہا جا سکتا ہے ۔ یعنی اس دستاویز تک رسائی کے لیے کسی ادارے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے بنیادی حقوق کا عوام الناس کو جاننا بے حد ضروری ہے۔
ہمارے ملک کے آئین کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ اس کو بنانے والے خود ہی اسے توڑنے میں پیش پیش رہے۔ موجودہ آئین چودہ اگست انیس سو تہتر کو نافد کیا گیا تھا تاہم ابتدائی پانچ برسوں میں اس میں سات ترامیم کردی گئیں۔ذوالفقار علی بھٹو واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے اپنے اقتدار کے دوران آئین میں سات ترامیم کیں۔ ان کے بعد نواز شریف ہیں جنہوں نے اپنے دو ادوار میں چھ مرتبہ ترمیم کی کوشش کی جن میں وہ پانچ کو منظور کرا سکے جبکہ ایک ترمیم واپس لے لی گئی تھی۔ محمد خان جونیجو کی تین ترامیم میں سے دو منظور ہوئیں جن میں ایک آٹھویں ترمیم بھی شامل ہے جب کہ ایک ترمیم کو غیر ضروری قرار دے دیا گیا تھا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی نے آئین میں ایک ترمیم منظور کرائی جس کو ستروہویں ترمیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو دو مرتبہ اقتدار میں آئیں تاہم ان کے دور میں آئین میں کوئی ترمیم نہ کی جا سکی۔ پاکستان کے آئین میں پہلی ترمیم انیس سو چوہتر میں کی گئی اور اس ترمیم کے ذریعے اکہتر میں علیحدہ ہونے والے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے طور تسلیم کیا گیا تھا ۔ کچھ ماہ بعد ہی آئین میں دوسری ترمیم کی گئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ۔تیسری ترمیم فروری پچھتر میں ہوئی جس کے بعد
صدر کی طرف سے ہنگامی حالت کے نفاذ کی میعاد کو بڑھا غیر معینہ مدت کر دیا گیا جب کہ اسی ترمیم کے ذریعے حراست میں لیے گئے افراد کے حقوق کو کم کرکے حکومت کے اختیار کو بڑھا دیا گیا۔ چوتھی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کے اختیارات کو کم کیا گیا جبکہ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور پنجاب اسمبلی میں یہ تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کر دی گئی۔ پانچویں ترمیم میں جہاں سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کو الگ الگ کیا گیا وہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ہائیکورٹس چیف جسٹسز کے عہدے کے لیے پانچ اور چار سال کی میعاد مقرر کی گئی۔ آئین میں چھٹی ترمیم اس وقت کی گئی کہ جب قومی اسمبلی کا عام انتخابات سے قبل آخری اجلاس ہو رہا تھا اور اس ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی میعاد کو اس طرح بڑھایا گیا کہ اگر کسی چیف جسٹس کے عہدے کی مقررہ میعاد پوری نہیں ہوتی اور وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت تک بطور چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کریں گے جب تک ان کے عہدے کی میعاد پوری نہیں ہو جاتی۔ اس ترمیم سے چیف جسٹس یعقوب علی خان کو فائدہ ہوا جن کو چیف جسٹس بنے لگ بھگ دو سال ہوئے تھے اور وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے۔ جسٹس یعقوب علی خان ذوالفقار علی بھٹو کے خاصے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ساتویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کو یہ سہولت مل گئی کہ اگر کسی مرحلہ پر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت ہو تو وہ اس مقصد کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے رجوع کر سکتے ہیں۔ بعض حلقوں نے اس ترمیم کو پارلیمانی نظام کی نفی بھی کہا۔ پانچ جولائی ستتر کو ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آئین معطل کر دیا اور مارچ انیس سو پچاسی میں آر سی او یعنی حکم برائے بحالی آئین کے ذریعے آئین میں ترامیم کرکے اسے بحال کر دیا ۔ آر سی او کے تحت غیر آئینی طریقہ سے جو ترامیم شامل کی گئی ان میں صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار، عسکری سربراہوں کی تقرری کی اختیار وزیر اعظم سے صدر کو منتقلی ، رکن بننے کے لیے اہلیت کی نئی شرائط ، قومی سلامتی کونسل کا قیام سمیت دیگر ترمیم شامل تھیں۔ پچاسی میں بننے والی پارلیمان نے جنرل ضیاء کی ترمیم معمولی تبدیلی کے بعد اس آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا۔ اس ترمیم میں جہاں قومی سلامتی کونسل کو قبول نہیں کیا گیا وہاں جنرل ضیاء کا نام بطور صدر آئین میں درج کیا گیا۔ آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کے باعث چار حکومتیں اپنی آئینی مدت سے پہلی ختم ہو گئی ہے ۔ نواز شریف دور میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے لیے پیش کی جانے والی گیارہویں ترمیم واپس لے لی گئی تھی جبکہ بارہویں ترمیم کے ذریعے سنگین جرائم کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی گئیں۔ نوازشریف نے اپنے دوسرے دور میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے آٹھویں ترمیم کے اس حصہ کو ختم کر دیا جس کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے اور عسکری قیادت کا چنائو کا صوبدایدی اختیار حاصل تھے ۔ نواز شریف نے چودھویں کے ذریعے ارکان اسمبلی کی وفاداری تبدیل کرنے اور ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کی کوشش کی ۔ ان دونوں ترامیم نے بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا۔ پندرہویں ترمیم کے ذریعے نواز شریف نے اسلام کا نام لے کر قطعی اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی یہ ترمیم قومی اسمبلی نے منظور کر دی لیکن سینٹ میں واضح اکثریت
کی وجہ سے پیش کی گئی اور اسی دوران نواز شریف حکومت فوجی ایکشن کے ذریعے ختم ہوئی۔ نواز شریف نے سولہویں ترمیم کے لیے کوٹہ سسٹم کی میعاد بیس برس سے بڑھا کر چالیس سال کر دی۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے فوجی ایکشن کے بعد آئین معطل کر دیا اور دو ہزار دو میں جب آئین بحال کیا گیا تو اس میں لیگل فریم ورک آرڈر یا ایل ایف او کے ذریعے ترامیم کی گئیں جس کے بعد صدر پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے اور فوجی سربراہوں کی تقرری کا اختیار دوبارہ مل گیا ۔ جب کہ قومی کونسل کو دوبارہ قائم کیا گیا ۔ دو ہزار دو میں وجود میں آنے والی اسمبلی نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ملکر ایل ایف او کی ترامیم کو سترہویں کے آئین کا حصہ بنایا ۔اٹھارویں ترمیم  8 اپریل 2010کو قومی اسمبلی نے پاس کی ۔ موجودہ صدر اس وقت بھی پاکستان کے صدر تھے ۔ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دئیے، چوں کہ وزیر اعظم قائدِ ایوان (Leader of the House) ہوتا ہے لہذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس بھی آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی مغربی سرحد صوبے کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا گیا۔ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دئیے گئے ۔19ویں ترمیم کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بھرتی کے نئے طریقہ کار ، جو اٹھارویں ترمیم  میں وضح کیا گیا تھا ، اس میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تبدیلی کرنا تھا ۔ 20 ویں ترمیم 2011ء میں کی گئی ۔ اس کے تحت قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کی صورت میں ججوں کی بھرتی کے لیے پارلیمانی کمیشن کے تمام اراکین ایوان بالا سینیٹ سے شامل کیے جائیں گے جب کہ پہلے پارلیمانی کمیشن اپنی سفارشات صدر کو بھیجتی تھی اب وزیر اعظم کو بھیجے گی۔ ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کی مدت کم از کم پانچ سال ہو گی ۔ ارکان کو چیف الیکشن کمشنر کی طرح حلف اٹھانا ہو گا ۔ اگر کسی رکن کی برطرفی مقصود ہو تو اس کا طریقہ کار بھی ججوں کی برطرفی کے طریقہ کار کی مطابق ہوگی ۔ نگراں حکومت کے وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کے لئے نام اسمبلی ٹوٹنے کے تین یوم کے اندر لیڈر آف دی ہاس اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے صدر کو بھیجے جائیں گے ۔ جنوری 2015میں 21ویں ترمیم منظور ہوئی اور یہ دور بھی نواز شریف کا ہی تھا اور اس ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی تھی اور قومی اسمبلی میں یہ بل نواز شریف کی منظوری میں ہوا تھا جمہوری سول حکومت میں ایسے بل کی منظوری افسوسناک امر ہے ۔
جون 2016میں 22ویں ترمیم کی گئی جس کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کر تفویض کیے گئے۔ 23ویں آئینی ترمیم جنوری 2017میں کی گئی جس کے تحت دوبارہ ملٹری عدالتوں کو مزید دو سالوں کے لئے ایکسٹینشن دی گئی جو جنوری 2019تک کے لئے تھی ۔24ویں ترمیم جو دسمبر 2017میں کی گئی تھی کے تحت وفاق کی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین اور مردم شماری 2017کی روشنی میں نئی انتخابی حلقوں کا تعین کرنا ہے۔25 ویں آئین ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا جو مئی 2018میں کی گئی تھی ۔
اب ن لیگ کی حکومت ایک نئی ترمیم کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ اس کے لیے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ترمیم نہ ہوئی تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اگر ہم ان تمام ترامیم کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا ان میں سے کسی ایک کا بھی تعلق قوم کی فلاح و بہبود سے نہیں ہے۔ یہ ساری ترامیم حکمراں طبقہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے یا اپنی ہی کسی خاص مقصد کے لیے کرتا ہے۔ گویا یہ آئین نہ ہوا موم کی ناک ہو گئی جسے جب چاہتے ہیں سیاست دان موڑ کر اپنا الو سیدھا کر لیا کرتے ہیں۔
ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا ہمارے سیاست دان کبھی عوامی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی آئینی ترمیم کریں گے ؟۔

جواب دیں

Back to top button