اپنے حصے کی شمع

رفیع صحرائی
تنقید کرنا دنیا کا سب سے آسان کام سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہی کام سب سے مشکل ہوتا ہے۔ نقاد کے لیے لازم ہے کہ وہ جس چیز، صنف یا فن پارے پر تنقید کر رہا ہو خود بھی اس کا ماہر ہو لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تنقید اور تنقیص کو خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ دوسروں کے کام یا شخصیت میں کیڑے نکالنا ہم میں سے اکثریت نے اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ یہاں آپ کو ایسے لوگ بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آئیں گے جنہیں سو تک پوری گنتی بھی نہیں آتی۔ ہم میں سے ہر کوئی خود کو زندگی کے تمام شعبوں کا ماہر سمجھتا ہے۔ بس اگر کسی چیز کا نہیں پتا تو وہ اس کا اپنا کام یا شعبہ ہے۔
ایک مصور نے ایک دوشیزہ کی تصویر بنائی اور اسے بیچ چوراہے میں رکھ دیا۔ ساتھ ہی لکھ دیا کہ اس تصویر میں اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ دوسرے دن جب اس نے تصویر کو دیکھا تو وہ نشانات سے بھری پڑی تھی۔ کسی کو آنکھوں میں خرابی نظر آئی تو کوئی پلکوں یا پھنووں پر معترض تھا۔ کسی کو بال پسند نہ آئے تو کسی کو ناک اچھی نہ لگی۔ المختصر تصویر کے ہر حصے پر اعتراض کیا گیا تھا۔ دوسرے دن مصور نے پھر وہی تصویر بنا کر چوراہے میں اس تحریر کے ساتھ رکھ دی کہ اس میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کریں اور ان غلطیوں کو درست بھی کریں۔ دوسرے دن تصویر اپنی اصل حالت میں موجود تھی۔
یہ ہمارا وتیرہ بن چکا ہے کہ غلطیاں اور نقص نکالنے میں ہم ایک لمحہ کی دیر بھی نہیں لگاتے لیکن نقائص کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی درستی یا اصلاح کی کوشش نہیں کرتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم تنقید برائے تنقید کے قائل ہیں۔ تنقید برائے اصلاح ہمیں اس لیے پسند نہیں کہ ہم دوروں کی شخصیت یا کام کو نقائص سے پاک دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک شاہراہ بنوانے کا فیصلہ کیا۔ اپنی طرف سے اس نے اس شاہراہ کو مثالی بنانے کے لیے خوب دولت خرچ کی، دور دراز سے پتھر منگوائے، ملک بھر سے ماہرین کو اکٹھا کیا اور سیکڑوں مزدور اس کام پر لگا دئیے۔ بالآخر شاہراہ مکمل ہو گئی۔ بادشاہ نے اس کے افتتاح کے لیے ایک انوکھا منصوبہ بنایا اور اس نے اپنی سلطنت میں اعلان کرا دیا کہ شاہراہ کے افتتاح کے لیے اسی شاہراہ کے آغاز سے اختتام تک ایک ریس کا اہتمام کیا جائے گا۔ ریس میں بلا تخصیص جوان بوڑھے تمام شہریوں کو حصہ لینے کے لیے کہا گیا۔ ریس میں شامل ہونے کے لیے رعایا میں بڑا جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ انہیں ریس جیتنے سے زیادہ اس بات میں دلچسپی تھی کہ وہ ان ابتدائی لوگوں میں شامل ہونا چاہتے تھے جنہوں نے اس شاہراہ کا پہلے روز نظارہ کیا۔
افتتاح کا دن آ پہنچا، تمام شہری شاہراہ کے ایک سرے پر جمع ہو چکے تو بادشاہ ان سے مخاطب ہوا
’’ اس ریس کا مقصد کسی کی ہار یا جیت نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ انسانی ہاتھوں کے بنے ہوئے اس شاہکار کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اس کی خوبصورتی کو ملاحظہ کریں اور ریس کے اختتام پر اپنے تاثرات کا اظہار کریں۔ اگر آپ کو کہیں کسی جگہ کمی یا کوتاہی نظر آئے تو اس کی بھی نشاندہی کریں۔ جس کا نقطہ نظر مجھے سب سے زیادہ پسند آیا اسے انعام سے نوازا جائے گا‘‘۔
یہ کہہ کر بادشاہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور شاہراہ کے دوسرے سرے کی طرف روانہ ہو گیا جو کہ ریس کا اختتامی پوائنٹ تھا۔ سب نے بڑے جوش و خروش سے ریس میں حصہ لیا۔ شاہراہ کے دوسرے سِرے پر بادشاہ ریس کے شرکاء کے تاثرات پُوچھتا رہا۔
کسی نے شاہراہ کی تھوڑی، کسی نے زیادہ تعریف کی، مگر سب نے بتایا کہ ’’ شاہراہ پر ایک جگہ بجری پڑی ہے۔ اگر اُسے اُٹھوا دیا جائے تو راہ چلنے اور دوڑنے والوں کے لیے بہت اچھا ہوگا‘‘۔
شام تک سب لوگ چلے گئے تو بادشاہ اُٹھ کر جانے لگا، ایک سپاہی نے خبر دی کہ ’’ ریس میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدمی جو شاہراہ میں صبح سویرے داخل ہوا تھا ابھی آنا باقی ہے‘‘۔
کچھ دیر بعد ایک درمیانی عمر کا شخص دھُول میں لت پت تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑے پہنچا اور ہانپتے ہوئے بادشاہ سے مخاطب ہوا: ’’ جناب عالی! میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا۔ دراصل راستے میں شاہراہ کے اوپر کچھ بجری پڑی تھی، میں نے سوچا اِس کی وجہ سے گزرنے والے لوگوں کو تکلیف ہوگی لہٰذا اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا، لیکن حضور! بجری ہٹاتے ہوئے مجھے اس کے نیچے سے یہ تھیلی ملی ہے، اس میں شاید کچھ سکے ہیں، ہو سکتا ہے سڑک بنانے والے مزدوروں میں سے کسی کے ہوں، یہ تھیلی اُسے دے دیجئے گا‘‘۔
وہ شخص اپنی بات ختم کر کے چلنے لگا تو بادشاہ نے کہا ’’ بڑے میاں! یہ تھیلی اب آپ کی ہے کیونکہ یہ میں نے ہی وہاں رکھوائی تھی، اس میں اشرفیاں اور جواہرات ہیں اور یہ تمہارا انعام ہے‘‘۔
پھر بادشاہ دوسرے حاضرین کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولا ’’ بہترین شخص وہ ہوتا ہے، جو گلے شکوے کرنے کی بجائے اپنے عمل سے کچھ کر کے دکھائے‘‘۔
اگر دیکھا جائے تو ہم سب بھی مجموعی طور پر اِس ’’ بجری‘‘ پر تو نالاں رہتے ہیں جو ہمارے راستے میں حائل ہے مگر اس کو ہٹانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم میں سے ہر کوئی گفتار کا غازی تو بن جاتا ہے، مگر کوئی بھی کردار کا غازی بننے کو تیار نہیں ہے۔
اللہ کرے ہم لوگ صرف باتیں بنانے کی بجائے اردگرد موجود چھوٹی موٹی ’’ بجریاں‘‘ بھی ہٹانا شروع کر دیں۔ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے بن جائیں۔ ایسا کرنے پر مجھے یقین ہے کہ ایک دِن ہم اُس حقیقی بادشاہ کی بارگاہ سے دنیا و آخرت میں انعام ضرور پائیں گے۔
احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے کہ:
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے





