ColumnImtiaz Aasi

آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کا فقدان

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
اللہ سبحانہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے شنگھائی کانفرنس کا مرحلہ بخیر و عافیت سے گزر گیا ۔ کانفرنس کے پرامن انعقاد نے یہ ثابت کر دیا پاکستان پر امن ملک ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شب روز اپنے فرائض ادا کرکے کانفرنس کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کانفرنس کے بعد ہمارا ملک ایک اور بڑے مرحلے سے گزرنے والا ہے جس میں حکومت کی طرف سے آئینی ترامیم لانے کی تجویز ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے آئین پاکستان ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ اتفاق رائے سے بنایا گیا جس میں اہم کردار ادا کرنے والوں کی اکثریت دنیا کو سدھار چکی ہے۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ آئینی ترامیم کب کی منظور ہو جاتیں متحدہ قومی مومنٹ، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت کو ان ترامیم کے سلسلے میں گرین سگنل مل چکا ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان ملکی معاملات پر گفت و شنید جمہوریت کا حصہ ہے۔ اگر صاحب اقتدار جماعت انفرادی طور پر ملک کے آئین میں رد و بدل کرنے کی خواہاں ہو تو ایسی حکومت کو جمہوری کہنا جمہوریت کی نفی ہے۔ عجیب تماشا ہے پہلے حکومت نے آئینی ترامیم کا مسودہ دکھائے بغیر ترامیم کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں ناکامی کی صورت میں حکومت نے سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا آغاز کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان جنہیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور پی ڈی ایم کی حکومت میں اتحادی ہونے کا شرف حاصل ہی اس کے انہوں نے آئین میں ترامیم کے معاملے میں کسی غیر آئینی ترمیم کا حصہ بننے سے سرد مہری ظاہر کی ہے۔ جاتی امراء میں ملک کے سیاسی رہنمائوں بشمول صدر آصف علی زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمان اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان عشائیے کی نشست میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہونے سے کابینہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے۔ اس ناچیز کے ذرائع کے مطابق آنے والے دنوں میں ایوان کے دونوں اجلاسوں میں آئینی ترامیم ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوں گی۔ سوال ہے آخر مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم بارے ابھی تک متفق کیوں نہیں ہوئے ہیں بلکہ حکومتی وزراء نے اس سلسلے میں بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دے کر ہماری اس بات کی تصدیق کردی ہے آنے والے دنوں میں دونوں ایوانوں میں آئینی ترامیم کا معاملہ زیر غور آنے کا کم امکان ہے۔ جے یو آئی کے امیر نے جاتی امراء کی نشست میں پی ٹی آئی رہنمائوں سے بات چیت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ملک میں سیاسی حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے حکومت کسی طرح پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو زیر کرنے کی خواہاں ہے اور اس مقصد کے لئے بعض ایسی آئینی ترامیم لانے کی طرف گامزن ہے جس کا سامنا مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ہو سکتا ہے۔ شائد اسی لئے جے یو آئی اور پی ٹی آئی مجوزہ آئینی ترامیم پر رضامند ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ دراصل حکومت نے آئینی ترامیم کرنے کے پہلے مرحلے میں نئی ترامیم بارے شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے ماسوائے 1973ء کے آئین کے برسراقتدار جماعتوں نے آئینی ترامیم اور قانون سازی میں کے سلسلے میں ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ربڑ اسٹمپ سمجھ کر قانون سازی کی۔ حالیہ وقتوں میں آئین میں ترامیم میں حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان سے حکومت بخوبی واقف ہے۔ حقیقت میں حکومت عدلیہ پر اپنا پورا کنٹرول رکھنے کی خواہاں ہے اس مقصد کے لئے پہلے ججز کی مدت ملازمت میں توسیع اور چیف جسٹس کے تقرر میں من مانی کرنے کی کوشش کی جسے سیاسی جماعتوں اور وکلا برادری نے مسترد کر دیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے حکومت کسی نہ کسی طریقہ سے پی ٹی آئی کے وجود کو ختم کرنے کی خواہاں ہے اسی لئے پی ٹی آئی کے بانی کو بہت سے ایسے مقدمات میں جیل میں رکھا گیا ہے جو قابل ضمانت ہیں۔ بلاشبہ ملک میں کرپشن ہر دور میں ہوئی ہے جس سے کوئی سیاست دان انکار نہیں کر سکتا۔ اقتدار میں آنے والی جماعتوں کے قائدین نے خلاف منی لانڈرنگ اور بیرون ملک اثاثے رکھنے کے مقدمات قائم ہوتے رہے جو انہوں نے اقتدار میں آکر قوانین میں ترامیم کرکے یا اپنے اثر و رسوخ سے ختم کرا لئے ہیں۔ حکومت کا آئین میں ترامیم کا بڑا مقصد عمران خان اور ان کی جماعت کے گرفتار رہنمائوں اور ورکرز کو سزائیں دینا مقصود ہے جس کے لئے آئینی میں ترامیم بہت ضروری ہے۔ جب تک آئین میں مطلوبہ ترامیم نہیں ہوتیں تاوقتیکہ کے سانحہ نو مئی کے ملزمان کو سزائیں دینا ممکن نہیں۔ سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف دہشت گردی یا عام عدالتوں میں مقدمات چلائے جاتے ہیں تو ملزمان کے خلاف ٹھوس شہادتوں کے بغیر انہیں سزائیں دینا ممکن نہیں۔ افسوناک پہلو یہ ہے آئینی ترامیم کے لئے سیاسی جماعتوں کے بعض ارکان کے بچوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ بعض ارکان کے گھر والوں کو اٹھا یا جا رہا ہے۔ آئین میں ترامیم لانے کا بڑا مقصد یہ ہے جب کسی شہری کو اٹھا لیا جائے تو کوئی عدالت کسی ادارے سے بازپرس کرنے کی مجاز نہیں ہوگی۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے پارلیمنٹ لاجز کے کمرہ پر چھاپہ ، پی ٹی آئی کے رہنما زین قریشی کی اہلیہ کا اغوا اس بات کا ثبوت ہے حکومت آئینی ترامیم لانے میں بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ دونوں ایوانوں میں مطلوبہ اکثریت کے فقدان کے باعث حکومت مخالف ارکان اسمبلی اور سینیٹ کے اہل و عیال کو ادھر ادھر کرکے دبائو میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ آئینی ترامیم میں مطلوبہ نمبر پور نے نہ ہونے کے باعث حکومت آئینی ترامیم مناسب وقت پر لانے کا واویلا کر رہی ہے ورنہ اگر دونوں ایوانوں میں مطلوبہ اکثریت ہوتی حکومت آئینی ترامیم لا چکی ہوتی۔ مولانا فضل الرحمن نے بیان کے مطابق حکومت آئینی ترامیم کے سلسلے میں جے یو آئی کو مطمئن نہیں کر سکی ہے انہی وجوہات کی بنا آئینی اصلاحات کے معاملے کو بار بار موخر کرنا پڑ رہا ہے ورنہ جس سبک رفتاری سے پہلے مرحلے میں آئینی ترامیم کرانے کی کوشش میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا لہذا جب تک جے یو آئی سے اس ضمن میں اتفاق رائے نہیں ہوتا آئین میں ترامیم ممکن نہیں۔

جواب دیں

Back to top button