Column

شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی کانفرنس

روشن لعل
اسلام آباد میں 16اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او ) کی 23ویں سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی جو سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی اس کے متعلق سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کی نوعیت تنظیم کی اس کانفرنس سے مختلف ہے جو گزشتہ برس بھارت میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تنظیم کی سال میں دو کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں ایک کانفرنس کو شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس جبکہ دوسری کو شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف دی ہیڈ آف دی گورنمنٹس کانفرنس کہا جاتا ہے۔ گزشتہ برس بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے تسلسل میں رواں سال جولائی میں تنظیم کی 24ویں کانفرنس قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں منعقد ہوئی جس میں شہباز شریف، پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے شریک ہوئے جبکہ گزشتہ برس اکتوبر میں کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف دی ہیڈ آف دی گورنمنٹس کی 22کانفرنس میں اس وقت کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ کونسل آف دی ہیڈ آف دی گورنمنٹس، جس کی حالیہ کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی اسے شنگھائی تعاون تنظیم کی دوسری بڑی ایگزیکٹو باڈی کہا جاتا ہے۔
جس طرح شنگھائی تعاون تنظیم کی ہر برس منعقدہ کانفرنس کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوتا ہے اسی طرح تنظیم کی ہر سربراہی کانفرنس کے بعد بھی ایک الگ ڈیکلریشن پیش کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان نے اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس میں ایس سی او کے بجٹ سے متعلق امور کی منظوری دینے کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر قائم تعلقات، باہمی مفادات ، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت ، طاقت کے استعمال کی دھمکی سے گریز جیسے عالمی اصول بہترین تعلقات اور پائیدار ترقی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، لہذا تنظیم کے رکن ممالک عالمی اتحاد برائے منصفانہ امن، ہم آہنگی اور اجتماعی ترقی کے لیے یو این جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کی تجویز پر پیش رفت کریں گے۔ اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کے راستے پر چلتے ہوئے جمہوری طور پر آزاد رائے اور انتخاب کا حق حاصل ہے۔ اس بنا پر ریاستوں کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کو باہمی احترام کے اصول کے تحت تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اعلامیے میں اسی اصول کی بنیاد پر مختلف ممالک کے درمیان اختلافات و تنازعات بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ تنظیم کے اعلامیے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ رکن ممالک سیاست، سلامتی، تجارت، معیشت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دیںگے۔ اعلامیے کے مطابق عالمی سطح پر بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹوں اور سرمایہ کاری میں عدم تسلسل کی وجہ سے غیریقینی صورت حال پیدا ہو رہی ہے، سپلائی کے مرحلہ وار نظام میں رکاوٹوں کی وجہ سے عالمی مالیاتی منڈیوں میں غیر یقینی کی صورتِ حال دیکھنے میں آ رہی ہیں لہذا تجارتی عمل کو بہتر بنانے اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ اجلاس میں زرعی تعاون کے فروغ کے پروگرام کی منظوری اور زرعی تجارت میں اضافہ ضروری قرار دیا گیا جبکہ عالمی غذائی تحفظ، غذائیت میں بہتری اور تحقیقاتی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ مشترکہ اعلامیے میں عالمی سطح پر مسابقت کی فضا پیدا کرنے، مصنوعی ذہانت کے لیے نئے تحقیقاتی منصوبوں پر کام کرنے ، نوجوانوں کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی میں مزید کام کرنے، ان کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کی پروگرامز کو ترجیح دینے اور ثقافت، سیاحت اور کھیل کے شعبوں میں تعاون کے فروغ پر زور بھی دیا گیا۔ ایس سی او کے مشترکہ اعلامیے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ یک طرفہ پابندیوں کا نفاذ بین الاقوامی قانون کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، اس طرح پابندیاں عائد کرنے سے پابندیوں کی زد میں آنے والے ممالک اور عالمی اقتصادی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذا اس طرح پابندیاں عائد کرنے کے رجحان سے گریز کی سفارش کی گئی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی اسلام آباد میں منعقدہ سربراہی کانفرنس کے جاری کردہ اعلامیے میں کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جسے منفی قرار دیا جاسکے مگر المیہ یہ ہے کہ اعلامیے کی تمام باتیں مثبت ہونے کے باوجود کسی ایک سے بھی یقینی بہتری کی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی ۔ شنگھائی تعاون تنظیم 1996ء میں بننے والے شنگھائی فائیوگروپ کے تسلسل میں 2001ء میں قائم کی گئی تھی۔ شنگھائی فائیو میں شامل پانچ ملکوں چین ، روس، کرغیزستان ، تاجکستان اور قازقستان کے بعد ازبکستان، بھارت، پاکستان ، ایران اور بیلاروس مختلف اوقات میں اس تنظیم کے رکن بنے۔ اس دوران تنظیم کے دو مختلف سپیرئیر حصوں کی کانفرنسیں ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوئیں جن کے اختتام پر اعلامیے بھی جاری ہوتے رہے۔ ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہونے والی کانفرنسوں کے اعلامیوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ان کی تقریباً ایک جیسی عبارتوں میں جو کچھ طے پایا اس پر عمل درآمد کی نوبت کم ہی آئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور اس کے سربراہی فورم کی منعقدہ کانفرنسوں کے بعد جو اعلامیے جاری کیے جاتے ہیں اس میں طے کی گئی باتوں کو معاہدے کی بجائے مفاہمت کہنا زیادہ مناسب ہے۔ معاہدے اور مفاہمت کا فرق یہ ہے کہ معاہدوں میں لکھی گئی باتوں میں عمل کی شرائط بھی شامل ہوتی ہیں جبکہ مفاہمت میں طے پانے نے والی باتوں کے لیے صرف پیش رفت کا اقرار کیا گیا ہوتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کو قائم ہوئے ربع صد ی ہونے کو ہے لیکن پہلے دن سے آج تک اس کے اعلامیوں میں بیان کی گئی بہت کم باتیں عملی اقدامات سے ہمکنار ہوئیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم جب 2001ء میں قائم ہوءی اس وقت آسیان تنظیم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا علاقائی اور اقتصادی تعاون کے لیے بنایا گیا کامیاب اتحاد ثابت ہو چکی تھی جبکہ جنوب ایشیائی ممالک کا اتحاد سارک کبھی پٹڑی پر چڑھتا اور کبھی اترتا محسوس ہوتا تھا۔ ان دنوں شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے مبصرین نے یہی رائے پیش کی تھی کہ مستقبل میں اس کا کردار سارک سے مختلف اور آسیان کے قریب تر ثابت ہو سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون کوتنظیم قائم ہوئے 24برس ہونے کے بعد اس سے وابستہ امیدیں کسی طرح بھی پوری نہیں ہو سکیں۔ آج شنگھائی تعاون تنظیم کو نہ سارک جیسا کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی آسیان کے ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جو بات شنگھائی تعاون تنظیم کو سارک جیسا اتحاد سمجھنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ سارک میں شامل مختلف ممالک کے باہمی اختلافات کی وجہ سے 2015 ء کے بعد اس کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا جبکہ ایس سی او میں شامل ملکوں کے باہمی اختلافات کے باوجود نہ صرف اس کے ہر سال باقاعدگی سے دو اجلاس ہوتے ہیں بلکہ ان اجلاسوں کے بعد مشترکہ اعلامیے بھی جاری کیے جاتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ملکوں کے باہمی تعاون سے تجارت ، سائنس و ٹیکنالوجی اور اقتصادی میدان میں ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں لیکن جب تک تنظیم میں شامل ملک اپنے اختلافات پس پشت نہیں ڈالتے اس وقت تک ترقی کے امکانات سے فائدہ ہ اٹھانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

Back to top button