Columnمحمد مبشر انوار

لاٹھی، گولی کی سرکار

محمد مبشر انوار
تحریر شروع کرنے سے پہلے، ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پارلیمان کی قانون سازی کو اس کا فرض منصبی سمجھتا ہوں اور یہ تسلیم کرتا ہوں کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ جدید جیورس پروڈنس میں عدالتی نظرثانی کے دوران، کسی بھی سقم کی تشریح کرتے ہوئے، عدالت پارلیمان کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون کی تصحیح کر سکتی ہے یا اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس وضاحت کا پس منظر درحقیقت یہ ہے کہ بہت قریبی اور محترم احباب کی نظر میں، تحریر حقائق کے برخلاف اور غیر جمہوری ہوتی ہے، جس میں انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے میری سوچ غیر جمہوری ہے اور میں پارلیمان کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتا، جبکہ میرا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ قانون سازی کا اختیار اور فرض منصبی پارلیمان کے پاس ہے اور عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی قانون کی تشریح کرتے وقت، نہ صرف ایسے کسی قانون کو جیورس پروڈنس کے معیار پر پرکھے بلکہ اگر کہیں اس سے متصادم ہو تو ایسے کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دے۔ اب مشکل یہ ہے کہ ایسی قانون سازی، جس سے کسی فرد واحد کو مدنظر رکھتے ہوئے، کی گئی ہو، اس کی مثالیں ن لیگ دور حکومت میں ہی نظر آتی ہیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں میں ایسی روش نسبتا کم ہے، تاہم تحریک انصاف کے گزشتہ اور اکلوتے دور حکومت میں جس طرح، جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے قانون سازی کی گئی، وہ بھی قابل ستائش ہرگز نہیں۔ یہاں عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی مہلت سے بھی اختلاف رہا ہے کہ فرد واحد کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کا عمل میں لانا کسی بھی صورت قابل ستائش نہیں اور محکمہ میں دیگر آفیسران کی حق تلفی ہے بالخصوص اس صورت میں جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ جنرل بننے تک، آفیسر کی ایسی تربیت ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ بہرصورت تمام حوالوں سے ترقی کرنے کا اہل ہوتا ہے اور جنرل کی اہلیت کو کسی بھی طور کسی دوسرے جنرل سے کم نہیں تصور کیا جا سکتا۔ اس صورت حال میں ایسی کیا آفت درپیش ہوتی ہے کہ لازما چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، کیوں نہیں دوسرے اہل جنرل کو ترقی کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا، کیوں دوسرے جنرل جو لائن میں کھڑے آرمی چیف کی پوزیشن کے منتظر ہوتے ہیں، انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے؟۔
سیاست کی لغوی تعریف پر پاکستانی سیاستدانوں کا معیار دیکھیں تو ممکنہ طور پر کوئی ایک بھی اس تعریف پر پورا نہیں اترے گا کہ سیاست کے لغوی معنوں میں سیاسی قیادت بالعموم مذاکرات کے نتیجہ میں ملک و قوم کے مفادات کے حصول میں بروئے کار دکھائی دیتی ہے جبکہ پاکستانی سیاستدانوں کے کردار پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ ان سیاستدانوں کا مطمع نظر فقط ذاتی اقتدار کا حصول ہی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی مثال اس سے بہتر نہیں ہو سکتی کہ اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی۔۔۔ جیتوں تو تمہیں پائوں، ہاروں تو پیا تیری، یعنی کوئی بھی صورت ہو، ان کے نزدیک اقتدار کا حصول ہی اہم ترین ہے جبکہ سیاست و جمہوریت کے کھیل میں بنیادی مسلمہ اصول ’’ جمہور‘‘ کی بہتری و فلاح و حقوق کا تحفظ ہے، جس سے یہ سیاستدان کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں۔ تمام تر کوششیں فقط ایک نقطے کے گرد گھومتی ہیں کہ کسی طرح ان کا اقتدار محفوظ رہے اور اسے دوام میسر رہے، اس کے لئے یہ کچھ بھی کرنے کی لئے تیار نظر آتے ہیں، اداروں اور محکموں کی آزادی و میرٹ تک کو روندنے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ ہر ادارے و محکمہ کو اپنے انگوٹھے کے نیچے دیکھنے کے خواہشمند یہ محدود سی سوچ رکھنے والے، بالعموم بھول جاتے ہیں کہ ابدیت صرف اور صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے جبکہ دنیا میں ہر چیز فانی ہے اور اپنے کردار کے مطابق ہی اس کا فیصلہ مورخ کے ہاتھوں ہونا ہے۔ اس وقت بھی اداروں کو نگوں کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی نشانہ عدلیہ ہے کہ کسی طرح اس کو زیر کر لیا جائے، قانون سازی ایسی کی جائے کہ عدلیہ کے دانت نکال کر اسے بے اثر کیا جا سکے۔ اس ضمن میں پارلیمان کا کردار انتہائی اہم تصور ہوتا ہے اور یہ استحقاق پارلیمان کا ہے کہ وہ کس طرز کی قانون سازی کرتی ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی پارلیمان کو ایسے لامحدود اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اگر رات کو دن اور دن کو رات کہہ دے، تو کیا اس کو قانون تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ کیا پارلیمان ایسا قانون بنا دے کہ کسی بھی شہری کو اپنا حق حاصل کرنے کا خود اختیار ہے، تو کیا اس کو قانون تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی ایسا قانون جس میں یہ لکھا جائے کہ کرپشن پر کوئی سزا نہیں ہو گی، اسے قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ گو کہ جنرل مشرف کے دور میں نیب میں پلی بارگین کے اصول میں یہ وضع کیا گیا تھا کہ اس صورت میں کوئی بھی کرپٹ ، نیب سے معاملات کو طے کر سکتا ہے اور لوٹی ہوئی رقم کا کچھ حصہ دے کر، اپنی کرپشن کو جائز قرار دے سکتا ہے، تب بھی اس کی مخالفت کی تھی کہ اس سے معاشرے میں کرپشن کا راستہ کھل جاتا ہے اور ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قانون سازی کرتے ہوئے جو بحث مباحثہ درکار ہوتا ہے، یہ حکومت اس سے گریزاں دکھائی دیتی ہے اور اس کا مزاج یہی رہا ہے کہ چند منٹوں میں قانون سازی کر گزرے، حتی کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے بھی یہی متوقع ہے کہ حکومت چند گھنٹوں میں ان ترامیم کو منظور کروانا چاہتی ہے، جسے جمہوری مزاج ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
یہ مزاج حکمرانی، درحقیقت بذات خود ایک کرپٹ سوچ کا مظہر ہے کہ حکمران تو ملک و قوم کے مفادات میں بروئے کار آتے ہیں جبکہ ایسی سوچ رکھنے والوں کے لئے ہمیشہ ان کی ذات اور لوٹی ہوئی دولت ہی ترجیح میں شمار ہوتی ہے، جس کا تحفظ ان کا فرض اولین دکھائی دیتا ہے۔ جماعتی پارلیمانی جمہوریت میں، نظریاتی و جماعتی نظم و ضبط کو مد نظر رکھتے ہوئے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں آئین پاکستان میں، مخصوص معاملات میں، جماعتی پالیسی سے منحرف والے اراکین کے حوالے سے آرٹیکل 63۔Aمیں ایسے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کی سزا درج ہے تاہم اس حوالے سے ان کے ووٹ کو شمار کرنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ 2022ء میں پنجاب اسمبلی میں ایسے منحرف اراکین کے حوالے سے عدالت عظمی کی طرف سے فیصلہ دیا گیا کہ ایسے اراکین کو نہ صرف ڈی سیٹ کیا جائے گا بلکہ ان کا ووٹ بھی ایسے مخصوص معاملات میں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ حالات و واقعات کے حوالے سے دیکھا جائے تو جمہوری روایات کو مضبوط بنانے کے لئے اور جماعتی نظم و ضبط کی پابندی کے حوالے سے یہ ایک بہتر فیصلہ تھا کہ پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کو ہوس و حرص و دبائو سے نکال کر آئینی تحفظ فراہم کر دیا گیا کہ وہ جماعت کے نظم و ضبط کے پابند رہیں۔ تاہم چیف جسٹس آف پاکستان نے اس کیس کی نظرثانی شنوائی میں، عدالتی روایات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، انتہائی سرعت و عجلت میں، اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اراکین پارلیمنٹ کو آزادانہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا حق فراہم کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے، یہ فیصلہ جمہوری روایات کو مضبوط کرے گا یا انہیں مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گا بالخصوص جب پاکستان میں نظریاتی سیاست کے نام پر فقط اقتدار کا حصول ہی مطمع نظر ہو، قانون کی بالا دستی کہیں نظر نہ آرہی ہو؟ یہ فیصلہ آنے پر، چیف جسٹس آف پاکستان مسلسل تنقید کا شکار ہے اور ان کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ مفادات کے تضادات کے پس منظر میں دیا گیا ہے اور چیف جسٹس کو یہ فیصلہ دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا تو دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئین کے مطابق یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ آئین ووٹ کو شمار کرنے کے حوالے سے خاموش ہے۔ یہاں یہ امر واضح ہے کہ سابقہ فیصلے میں بھی عدالت نے آئینی معاملے کی تشریح کرتے ہوئے، ووٹ کو شمار نہ کرنے پر اگر آئین کو دوبارہ تحریر کیا تھا، تو اس فیصلے میں بھی ووٹ کو شمار کرنے کا فیصلہ دے کر آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا ہے، جبکہ آئینی تشریح کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ جو رکن اسمبلی بھی جماعتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس کا ووٹ شمار نہیں ہونا چاہئے اور اسے ڈی سیٹ بھی کیا جانا چاہئے جبکہ ووٹ شمار کرکے ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ آئین کی روح کے منافی ہی سمجھا جائے گا۔ جبکہ مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے جو کوششیں حکومت کر رہی ہے، جس طرح سے اراکین اسمبلی کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس فیصلے کے بعد اور ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اراکین اسمبلی ہاتھ باندھ کر حکومت کے سامنے جا کھڑے ہوتے اور آئینی ترمیم کے عوض، نہ صرف خود بلکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی سنوار لیتے، لیکن ہنوز ایسا نہیں ہو سکا۔ حکومت کو اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے، ہوس و حرص کے علاوہ دبائو اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑ رہے ہیں کہ اپوزیشن کے بیشتر اراکین اسمبلی کے گھروں پر چھاپوں کے علاوہ ان کے اہل خانہ کو زدوکوب کرنے کی اطلاعات ہیں، ان کے گھروں کو مسمار کرنے، ان کے کاروبار کو تباہ کرنے کے واقعات مسلسل رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن عدالتیں اس امر پر خاموش ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے میں یہ بھی تحریر کر دیتی کہ حکومت کسی بھی طرح اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ہوس و حرص و پرتشدد کارروائیوں سے گریز کرے گی، لیکن یقینی طور پر یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں اور اسے آئین دوبارہ تحریر کرنا سمجھا جاتا۔ بہرکیف اس فیصلے کے باوجود حکومت اپنی تمام تر فسطائیت استعمال کرنے کے باوجود، مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام ہے، حکومت کے ان اقدامات پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ لاٹھی، گولی کی سرکار، زیادہ دیر چلتی دکھائی نہیں دیتی۔

جواب دیں

Back to top button