کیا ہم گدھے ہیں

ندیم اختر ندیم
گدھے اور گھوڑے میں بحث چل رہی تھی، گھوڑا کہہ رہا تھا آسمان نیلا ہے، جبکہ گدھے کا کہنا تھا آسمان کالا ہے۔ دونوں اپنی جگہ پر اٹل تھے، فیصلہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کے پاس چلا گیا، شیر نے گھوڑے کو سزا سنا دی، گھوڑے نے کہا بادشاہ سلامت آپ جانتے ہیں میں صحیح ہوں، بادشاہ نے کہا تمہیں سزا اس بات کی نہیں دی بلکہ سزا اس بات کی دی گئی ہے کہ تم نے گدھے سے بحث کی۔
ان دنوں یہی حالات ہمارے ملک کی سیاست کے ہیں، لوگ گدھوں سے بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ان گدھوں نے ملک کو کس قدر نقصان پہنچایا کہ جس کا ازالہ کرتے بھی صدیاں لگ جائیں اور ہم ان کی بات مانتے آئے ہیں، ان کی باتوں میں آ کر ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا، وقت کا ضیاع کیا، یہ ہمیں آج تک بیوقوف بناتے رہے ہیں، انہوں نے کبھی لسانی، کبھی مذہبی، کبھی فرقہ واریت، کبھی صوبائیت تو کبھی سیاسی جھگڑوں میں الجھائے رکھا۔ ان کی بات مان کر آج ہم یہ سزا بھگت رہے ہیں، انہوں نے کبھی سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر ہمیں لوٹا، کبھی حالات کی بہتری کی نوید سنائی، کبھی ملک کی ترقی تو کبھی عوامی خوشحالی کے نام پر یہ لوگ ہمیں بیوقوف بناتے رہے، ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ در اصل وہ گدھے تھے جن کی ہم نے بات مانی یا ہم گدھے ہیں کہ جو ان کی بات مان کر ان خساروں کو
پہنچے۔ ہم بجلی کی گرانی کا رونا روتے ہیں، مہنگائی کا واویلا کرتے ہیں، بے روزگاری کا ماتم کرتے ہیں، ملک کی شکستہ صورتحال، کاروبار کی خستہ حالی پہ کڑھتے ہیں، لاغر معیشت، حالات کی مشکلوں، نا انصافیوں، بد امنی، افراتفری کی بات کرتے ہیں لیکن یہ سارے خرابے ہمارے حصے میں آئے، اس لئے کہ ہم نے ان کی تقلید کی اور یوں اپنی منزل کو کھو دیا۔ ہم نے سوچا تھا کہ ان کی رہنمائی میں اپنی منزل پا لیں گے، حالانکہ گدھوں کی رہنمائی میں منزل کیا پاتے، ہم نے راستے بھی کھو دئیے۔ ہمارے راستوں کا تعین تو پہلے روز سے ہو چکا، نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے راستوں کا تعین کر دیا تھا۔ آزادی کی جدوجہد میں قائد اعظمؒ نے ہماری راہیں متعین کر دی تھیں، لیکن ہم صرف گدھوں کی بات مان کر راستوں سے بھٹک گئے، نتیجتاً آج ہم گرتے پڑتے گم گشتہ راستوں میں بھٹک رہے ہیں، ہمیں کوئی راہ ہی نہیں مل رہی ہے کہ جس پر چل کر اپنی منزل کو پالیں، نہ ہی ہمیں کوئی سراغ مل رہا ہے، نہ ہی کوئی ایسا رہنما نظر آتا ہے جو ہماری منزلوں کا نشان ہی دکھا دے،50۔60سال پہلے یہ گدھے جو نعرے لگاتے تھے جو وعدے کرتے تھے، آج 50۔ 60سال بعد بھی یہ ہم سے وہی وعدے اور باتیں کر
رہے ہیں، نہ تو ان کے وعدے بدلے، نہ ہی نعرے، وہی باتیں دہرائی جارہی ہیں اور ہم ان ہی باتوں پہ یقین کئے جارہے ہیں۔
پاکستان کا قیام دنیا کی تاریخ میں کسی معجزے سے کم نہیں تھا، ہم چاہتے تو پاکستان کو آج دنیا کے مقابلے میں لے آتے، پاکستان جو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے، ہم ایک ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی محروم تمنا ہیں، دوسروں کے رہن منت ہیں، نہ ہم اپنا بھلا کر پا رہے ہیں نہ ہم کسی دوسرے کے کام آ رہے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، فلسطینیوں کو گھیر گھیر کر مارا جارہا ہے، انہیں اتنی عبرت ناک موت دی جارہی ہے کہ دنیا کی تاریخ بھی شرما کر رہ جائے۔ ذرا سوچئے آج سے 50سال بعد ہم کس جگہ ہونگے، ہماری حالت کیسی ہوگی، پاکستان کے جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا، پاکستان کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر رکھی گئی اور پاکستان عشاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مسکن ہے، لیکن ہم کون سی ایسی راہ پر چلے کہ جن پر آزادی کی تحریک میں لازوال قربانیاں دینے والے ہمارے شہیدوں نے ہمیں گامزن کیا تھا۔ ہم تو ان گدھوں کی بات مان کر اپنی پہچان بھی کھو بیٹھے، دنیا کی آنکھ نے فلسطین میں ایسے ایسے منظر دیکھے کہ جس کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھے، وہ بوڑھا جو بچوں کی لاشوں پہ کھڑا ہو کر انہیں پیغام دے رہا تھا کہ میرے بچوں تم جنت مکیں ہوئے، تم جنت میں جا کر نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بعد از درود و سلام عرض کرنا کہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال امت مسلمہ ہمیں مرتا جلتا کٹتا دیکھتی رہی، لیکن ہمیں بچا نہ سکی، ہماری امداد کو نہ پہنچی۔ دنیا کی آنکھ نے دیکھا کہ ایک ایک کمروں میں کم سن بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں، خون میں لتھڑے ہوئے ان کے جسم اور جسم کے بکھرے ہوئے جابجا اعضاء اسرائیل کی درندگی کا نوحہ کہہ رہے تھے، دنیا کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ اسرائیلی ، فلسطینیوں کا تعاقب کر کے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مار رہے ہیں، دنیا چیختی رہی لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رنگی، ہسپتال میں زخمیوں پر میزائل گرا دئیے گئے، سکول، مساجد اور چرچ تک نہیں چھوڑے گئے۔ پناہ گزینوں پر بم برسا دئیے گئے، رمضان المبارک میں فلسطینی روزہ داروں کو عین اس وقت شہید کیا گیا کہ جب وہ افطاری کرنے والے تھے۔ ہجرت کرنے والوں کو راستوں میں مارا گیا، دنیا کی تاریخ نے دیکھا کہ مائیں اپنے بچوں کی لاشیں ڈھونڈ رہی ہیں، باپ اپنے بچوں کے جسموں کے چیتھڑے تھیلوں میں ڈالے کلمہ طیبہ پڑھتے کہہ رہے ہیں یہ میرے بچوں کے چیتھڑے ہیں، ماں اپنے زخمی بچے کو گود میں اٹھائے اس کے لیے پانی کی فریاد کر رہی ہے، لیکن اس کو پانی میسر نہیں، علاج دستیاب نہیں ،غزہ کی ہر گلی میں کربلائی مناظر دیکھنے کو ملے، لیکن دنیا میں کوئی مسلم ملک بھی اسرائیلیوں کے بڑھتے ہوئے قدم روک نہ سکا۔ دنیا کی تاریخ نے دیکھا کہ اسرائیل نے کسی ملک کی خود مختاری کی پروا نہیں کی۔ شام، لبنان، ایران ہر جگہ پر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا، لیکن ہم کہیں بھی کسی کی امداد کو نہیں پہنچے، ہم کسی کی امداد کو کیا پہنچتے کہ ہم خود بڑی کسمپرسی کا شکار ہیں، ہماری اپنی حالت بڑی خراب ہے، جس کے ذمہ دار جہاں یہ گدھے ہیں، وہاں خود ہم بھی ہیں، کہ ہم نے بار بار انہی کا انتخاب کیا، اس لئے ہم آج کتنا ہی کہیں کہ آسمان نیلا ہے، یہ گدھے اسے کالا ہی کہیں گے، لیکن ہمارے صحیح ہونے کے باوجود سزا کے ہم ہی مستحق ہیں کہ ہم ان گدھوں کی بات مانتے رہے۔







