Column

دنیا کا اہم معاشی اجلاس پاکستان کیلئے مفید ہوسکتا ہے؟

عبد الرزاق برق

دنیا کا اہم ترین معاشی فورم اور 10ممالک کے ممبران پر مشتمل تین ارب سے زیادہ آبادی رکھنے والی شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم نوعیت کا23واں اجلاس موجودہ دور میں پہلی دفعہ اسلام آباد میں 15اور16اکتوبر کو منعقد ہورہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس دنیا کے بڑے ایونٹس میں ایک ہے جوکہ دنیا کی آبادی کا40فیصد حصہ بننے کے ساتھ اسی تنظیم میں 24ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی شامل ہے ۔ اس تنظیم میں اپنے عوام کے مالی مسائل حل کرنے کا پوٹینشل بھی پایا جاتا ہے کیونکہ ان ممالک میں دنیا کے کل تیل کا 20فیصد اور گیس کا40فیصد حصہ بھی پایا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اس ایک اہم معاشی اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے دوسرے اہم رہنمائوں کی شرکت کے ساتھ پاکستان کے اہم ہمسایہ ملک بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کے 9سال بعد اس اجلاس میں شرکت کرنے پر زیادہ سوالات پیدا کر دیئے ہیںکہ ایک ایسا ملک بھارت جو اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں بھیجتا وہ اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان بھیجنے پر اچانک کیسے رضا مند ہوگیا؟ کیا بھارتی وزیر خارجہ کی شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روزہ اجلاس میں شرکت سے دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات بہتر ہوں گے؟ اس سوال کا پہلا جواب امکان کی حد تک یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان نے امریکہ سے درخواست کی ہو اور انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ کو کہا ہو کہ آپ پاکستان جائیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ روسی دبائو کے ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک سے سرخ جھنڈی کی وجہ سے بھارت پاکستان کی طرف پلٹا ہے ورنہ بھارت پاکستان کو اپنا منہ بھی نہیں دکھاتا ۔ بھارتی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بظاہر دوطرفہ تعلقات سے زیادہ کثیرالجہتی اور سفارت کاری سے متعلق ہے لیکن اس کے مقاصد کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ یہ فیصلہ بلاشبہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ بھارت کی وابستگی سے زیادہ پاکستان کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ۔ بھارت کے ماضی کے منفی طرز عمل کے برخلاف پاکستان مثبت رویہ اپناتا رہا ہے ۔ گزشتہ سال بھارت کی ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ اجلاس میں پاکستان کے نوجوان سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی تھی اگرچہ اس وقت بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے گوا میں بلاول بھٹو زرداری سے باقاعدہ ملاقات تو نہیں کی تھی لیکن بلاول کا خود استقبال تو کیا تھا اس لئے اب اگر بھارتی وزیر خارجہ اسلام آباد آئیں گے اگرچہ اسحاق ڈار کی ان سے باقاعدہ تفصیلی ملاقات نہ ہو لیکن اسحاق ڈار ان کا خود استقبال کریں گے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس بارے میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تحکمانہ رویوں کا نتیجہ بھارت کی بڑھتی ہوئی تنہائی کی شکل میں سامنے نظر آیا ہے ۔ چین اور پاکستان کے ساتھ ہی سری لنکا، نیپال اور مالدیپ کے بعد بنگلہ دیش سے بھی بھارت کے تعلقات ان دنوں سخت کشیدگی کا شکار ہیں اور بنگلہ دیشی عوام نے بھارت کے تسلط کے خلاف عملا بغاوت کرکے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے جو مودی سرکار کی کٹھ پتلی بن چکی تھی۔ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں نہایت خوش آئند تبدیلی آئی۔ اور توقع ہے کہ بہت جلد دونوں ملکوں میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم تعاون کا آغاز ہوگا لیکن بھارتی وزیر خارجہ اسلام آباد آنے سے پہلے یہ بیان داغ کر امن کے خواہاں حلقوں پر اپنی ضدی پالیسی ظاہر کردی اور میڈیا پر روایتی موقف دے کر دراصل خطے میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز کر رہے ہیں اگرچہ ان کے اس بیان سے پاکستان میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کی حامی قوتوں کو مایوسی ہوتی ہوگی جو مسلم لیگ ن کی حکومت میں کسی بڑے بریک تھرو کے امکانات تلاش کر رہے تھے لیکن وہ فراموش کرگئے ہیں کہ بھارتی ہٹ دھرمی نے تنازع کشمیر کے متعلق سنگینی پیدا کردی ہے ۔ کل جماعتی حریت پسند کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کے مطابق بھارت اور پاکستان کے پاس شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں برف توڑنے اور تعمیری طور پر بات چیت کا ایک حقیقی موقع ہے اگرچہ بھارت نے ہر سطح پر پاکستان سے رابطے اور بات چیت کا امکان بند کر رکھا ہے ۔ مگرشنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران موقع ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے حکام ایک دوسرے کے ساتھ بات کر لیں ۔ گزشتہ دنوں UNOکے جنرل اسمبلی اجلاس میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں سارک بحالی پر بات ہوئی ہے۔ سارک تنظیم اس وقت قائم کی گئی جب مغرب علاقائی اقتصادیات کو بلاک کی شکل میں لانے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو اس وقت خطے کے ممالک کو تجارتی و ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے سارک تنظیم بنائی گئی۔ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھایا جاتا تو اس وقت پاک بھارت کے سیاسی و دفاعی اختلافات ختم ہوچکے ہوتے۔ بھارت کو جیسے ہی علاقائی طاقت بننے کا جنون چڑھا سارک تنظیم غیر موثر ہونے لگی، جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان تنازعات نے خطے کی کثیرالجہتی تنظیموں کو موثر طریقے سے معذور کر دیا ہے جیسے کہ جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) ایک علاقائی گروپ جس کے رہنمائوں نے ایک دہائی میں کوئی اجلاس نہیں کیا۔ اب مبصرین اس اندیشوں کا شکار ہیں کہ کیا اس وقت SCOکو تو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی بنیاد روس اور چین نے رکھی ہے۔ اس کی قیادت چینی صدر زی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پوٹن کے پاس ہے ۔ سارک کی نظیرSCO کے متعلق تشویش پیدا کرتی ہے یہ تنائو ممکنہ طورپر تنظیم کو متاثر کر سکتا ہے تا ہم چین اور اس جیسی عالمی طاقتوں کی قیادت میں SCO مضبوط ایک مختلف صورتحال پیش کر سکتی ہے ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اہم اجلاس کے انعقاد کے بارے میں دو اہم سوالات خطے میں کئے جارہے ہیں کہ خطے کے دو پڑوسی ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ پانچ برس سے تعلقات میں تنائو کی ایک وجہ یہ چلی آرہی ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان بنیادی تنازع کشمیر ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہمالیہ کا ایک متنازعہ علاقہ ہے دونوں ممالک اسی کشمیر پر متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں دوسری وجہ تعلقات خراب ہونے کے یہ ہے کہ جب اگست 2019میں نریندر مودی کی انتہا پسند ہندو قوم پرست حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کر دیا اگرچہ اس شق نے کشمیر کو جزوی خود مختاری دے رکھی تھی مگر بھارت کے اس اقدام پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی بول چال بھی بند ہونے کے ساتھ پاکستان نے دوطرفہ بات چیت کے لئے پیشگی شرط رکھ دی اور یہ کہا کہ جب تک بھارت یہ ترمیم واپس نہیں لیتا اس سے بات نہیں ہوگی؟ کیا شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ان دو ممالک کے درمیان بندکی گئی سفارتی بول چال دوبارہ بحال کر سکے گا ؟ تاکہ بند کھڑکیاں اور دروازے کچھ نہ کچھ کھل ہی جائیں اور ان دونوں ممالک کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ دو پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات ملکی مفاد میں تو ہیں لیکن ملک چلانے والوں کے مفاد میں نہیں لیکن پھر بھی پاکستان اور بھارت کے اچھے تعلقات ہوں۔ پوری دنیا گلوبلائز ہوچکی ہے جب تک آپ کے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہوں گے آپ سکھ اور چین سے نہیں رہ سکتے ۔ اس لئے ہمیں دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے آپس میں دشمنی کرنے کے بجائے غربت اور افلاس کے خلاف لڑنا چاہیے 76سال میں دشمنی کرکے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا سوائے تنزلی کے جو فائدے دونوں پڑوسیوں کو دوستی میں ملیں گے وہ دشمنی میں نہیں ملیں گے ۔ دونوں کی بہتری اسی میں ہے کہ آپس میں تجارت شروع کی جائے تاکہ دونوں ممالک کے غریب عوام کو آلو پیاز ٹماٹر سستے تو مل سکیں۔ ان دونوں ممالک کی دشمنی سے غریب عوام کا کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اگر تعلقات بہتر ہوگئے تو دونوں ممالک کے عوام کا فائدہ ہوگا لیکن یہ فائدہ حکومت اور فیصلہ سازوں کا نہیں جبکہ خود یہ اچھے تعلقات پاکستان کے حق میں بھی ہیں کیونکہ ایک طرف سے پاکستان اپنے آپ کوایک امن پسند ملک کہتا آیا ہے اور انہوں نے ہمیشہ اختلافات کوبات چیت سے طے کرنے کی حمایت کی ہے اب اگر بھارت پاکستان سے بات چیت کرنے کا خواہش مند نہیں تو اس کی یہ سوچ شنگھائی تنظیم کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتی اور تنظیم کی استعداد پاکستان بھارت کو ترقی اور پرامن انداز میں اپنے اختلافات ختم کرنے کا موقع دیتی ہے۔ اسی طرح یہ تنظیم بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی سٹریٹیجک رسائی کو مزید گہرا کرنے کی سہولت دیتی ہے۔ بھارت کے پاس پہلے ہی وسطی ایشیا میں سوفٹ پاور کی کافی صلاحیت موجود ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت وسطی ایشیاء ممالک کے معدنی اور توانائی کے وسائل تک رسائی فراہم کرنے کی سلامتی کو فروغ دے سکتی ہے ۔ خطے کے ان دو پڑوسی ممالک بھارت اور پاکستان 9جون 2017 کو شنگھائی تعاون تنظیم SCOکے مکمل رکن بن گئے اور ان دونوں ممالک کی رکنیت کا اعلان قازقستان کے صدر نور سلطان نذربایوف نے کیا اور انہوںنے دونوں ممالک کو تنظیم میں نئے رکن کے طور پر خوش آمدید بھی کہا ۔ دوسرا اہم سوال یہ کیا جارہا ہے کہ اس خطے کے اسلامی ملک ایران جوکہ قدرتی تیل اور گیس سے مالامال ہے اس ملک سے پاکستان کو سستے تیل اور گیس سے مستفید کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا؟ اور کون اس میں کھلی رکاوٹ بنا ہوا ہے ؟ حالانکہ ایران سے پاکستان کی سرحد تک گیس پہنچانے کیلئے پائپ لائن بچھائی گئی ہے جس پر اربوں ڈالر لاگت آئی ہے۔ کیا شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے اس اہم ملک کے گیس اور تیل سے پاکستان کو مستفید ہونے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کریگی ؟شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک سرکردہ ملک چین کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی لاگت سے سی پیک بنایا جارہا ہے لیکن پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تین سال بند کر دیا گیا تھا ۔کیا اس فورم کے پاس کوئی قوت ہے کہ پاکستان میں سی پیک کو جلدی مکمل کر سکے کیونکہ دنیا کا ایک سپرپاور ملک امریکہ اور مغربی ممالک کی یہ پوری کوشش ہے کہ پاکستان سی پیک سے مکمل طور پر استفادہ حاصل نہ کر سکے۔

جواب دیں

Back to top button