کنٹینرز کون اٹھائے گا
عبدالحنان راجہ
لاہور کے سفر کے دوران سڑکوں پر پڑے کنٹینرز دیکھ کر خیال آیا کہ یہ تو دو چار روز میں اٹھا ہی لیے جائیں گے مگر سیاسی رہنمائوں کے دل و دماغ پر پڑے تعصب، مفاد پرستی، ہوس اور بہتان تراشی کے کنٹینرز کون اٹھائے گا ؟۔ کہ حکومت اور اپوزیشن میں باہمی تعلق یا گفت و شنید تو دور کی بات کشیدگی اتنی آگے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت نے اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطین پر قومی کانفرنس تک میں شرکت گوارا نہ کی۔ کوہتاہ نظر سیاست دان کیسے ملکی مفادات کو پس پشت ڈال کر انا پرستی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔
قتیل شقائی نے درست ہی کہا تھا
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے،
اک یہی عیب ہے اس شہر ( ملک) کے دانائوں میں
حکومت کی مجبوریاں تو رہتی ہی ہیں مگر اب تو اپوزیشن بھی مجبور ہے۔ بانی پابند سلاسل تو دوسرے درجہ کی قیادت کو سرخروئی کے لیے جاں نہیں زباں لڑانا پڑتی ہے سو وہ لڑا بھی رہی ہے کہ وہاں ایسی ہی سخن وری مقبول. اسی خاطر راہنما زبان درازی میں حد سے ہی نکل جاتے ہیں۔ فیصلہ سازی میں ان کا اختیار بھی ہمارے محترم وزیر اعظم کی طرح کا ہی ہے۔ کہ بیرسٹر گوہر فلسطین پر قومی کانفرنس میں شرکت کے خواہاں تھے مگر پی ٹی آئی کا گلشن اجاڑنے والوں کے دبائو میں آ کر انہوں نے فیصلہ تبدیل کر کے اچھی بھلی سیاسی جماعت پر یہودی نواز ہونے کا الزام لگوا لیا۔ ویسے کپتان کے یہودی نواز ہونے بارے مولانا ہی بہتر بتا سکتے ہیں ہم خوامخواہ اک بڑے بہتان کا گناہ اپنے ذمہ کیوں لیں۔ مگر پوچھنے والے پھر بھی شرارت سے باز نہیں رہتے کہ پہلا بیانیہ جھوٹ تھا یا اب محبت جھوٹی۔ مدتوں پہلے مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ ’’ سچ بول کر رسوا ہونے سے بہتر ہے کہ جھوٹ بول کر ہوا جائے کہ کم از کم صبر ا جاتا ہے کہ سزا کس بات کی مل رہی ہے‘‘۔
یوسفی کو کون بتائے کہ اقوال اب تبدیلی کے مراحل میں ہیں۔ اب جھوٹ میں رسوائی نہیں رعنائی ہے. کہ اب ان کے پیروکاران اسے سیاسی دانش مندی قرار دے قائد کی عبا بچا لیتے ہیں۔ اب تو عالم یہ ہو چکا کہ جھوٹ بولنے والے سے زیادہ، سننے والے اس کے مشتاق رہتے ہیں کہ ہر روز یو ٹیوبرز کی لمبی لمبی سنے بغیر نیند حرام۔ یہی تو وجہ ہے معاشرے کا ہر طبقہ بے اطمینانی کا شکار۔ جھوٹ کی نحوست نے پورے معاشرے کو بے سکون کر رکھا ہے۔ سیاست ہی کیا صحافت اور امامت سبھی کا حال برا۔ آج کا
عنوان کچھ اور تھا. لکھنے کو بیٹھیں تو خیالات مجتمع ہی نہیں ہو پاتے جیسے ووٹنگ کے موسم میں اراکین اسمبلی۔ سیاسی موضوعات پر قلم آرائی کبھی بھی محمود نہیں رہی، معاشرتی بے سکونی اور سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال پر کچھ کہنا مقصود تھا، مگر مقدمہ طویل ہو گیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسائل کی بڑی اکثریت ہماری اپنی پیدا کردہ کہ اگر ہم اپنی عادات و خیالات ہی کچھ بدل لیں تو پریشانیوں کا بہت سا بوجھ کندھوں سے اتارا جا سکتا ہے۔ مگر کوئی اتارنے کو تیار نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ کہ ہم اپنے ہی لیے وقت نکالنے سے معذور ہو چکے۔ اپنی مصروفیات میں سے جو حصہ اہل خانہ، عزیز و اقارب اور دوست احباب کے لیے مختص تھا وہ بھی سیل فون اور سوشل
میڈیا کی نذر ہو گیا۔ اس عادت نے دین سے رہا سہا کمزور تعلق ختم کیا تو بدعقیدگی کی لہر نے جنم لیا۔ اخلاق، عقیدے اور ایمان پر ضرب لگانے کے لیے سوشل میڈیا سکالرز مفت میں دستیاب کہ جو نہ صرف معاشرے بلکہ امت کے بگاڑ کا بھی سبب بن رہے ہیں۔ علم کے سمندر میں غوطہ زنی اور لیل و نہار فقہیان عصر کی مجلس میں صرف کیے بغیر علم سے تخریب ہی ہو گی تعمیر تو ہونے سے رہی۔ اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر حکمت و دانائی کے موتی کیسے چنے جا سکتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا سکالرز ان سب سے بے نیاز معاشرے کے فکری انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ والدین بالخصوص مائوں سے معذرت کے ساتھ کہ ماں کی گود جو بچے کی پہلی درس گاہ تھی خود ماں نے ہی اجاڑ دی اور نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی سیل فون کو سونپ کر وہ بے فکر ہو رہیں۔ تمامی نہیں مگر غالب اکثریت کو اسی مرض میں مبتلا پایا۔ اب حال یہ ہے کہ والدین سیل فون کے نشے کے عادی بچوں سے پریشان ہیں تو بچے والدین کی موبائیل فون دوستی پر حیران۔ ان مشاغل کے بعد تعلیم و تربیت اور فہم دین کے لیے وقت کہاں سے نکلے۔ یہی تو وجہ ہے کہ مواصلاتی رابطوں کے موجد معاشرے بھی سیل فون کے بے دریغ استعمال کے منفی اثرات بارے متجسس۔ احساس، دوسروں کے لیے فکر مندی
اور ایک دوسرے سے محبت کے جذبات اب کہاں رہے۔ بس دوستی رہ گئی تو سیل فون سے۔ پروفیسر سینٹوس کا مشورہ قابل توجہ کہ جو لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کم کرتے ہیں وہ حقیقی خوشی کے زیادہ قریب رہتے ہیں۔ امریکی محقق اور ماہر نفسیات لیری روزن کے مطابق ’’ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال انسان میں خود پرستی، نفسیاتی مشکلات اور پرتشدد جذبات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے ‘‘۔ گھر سے معاشرے تک ڈپریشن، بے سکونی اور بے برکتی بے وجہ نہیں۔ ان مسائل سے چھٹکارے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے لیے وقت نکالا جائے، دل و دماغ کو حسد، بہتان، جھوٹ، اور طعن و تشنین سے پاک اور جھوٹ برمبنی سوشل میڈیا کے رشتوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے حقیقی رشتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ عیب جوئی کی بجائے عیب پوشی کی عادت اپنا کر ھم ذہنی کرب سے نجات پا سکتی ہیں۔ صبح شام قرآنی آیات و اصلاحی پیغامات دوسروں کو بھیجنے کی بجائے ہمیں ان پر عمل کی زیادہ ضرورت ہے۔ اہل تصوف کا یہ عمل قلبی اطمینان کے لیے اکسیر ہو گا کہ دوسروں کے دکھ درد بانٹے جائیں۔ یقین جانییے اگر اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو قدرت ہمارے غم رہنے نہیں دی گی۔