قید تنہائی کا شکوہ، قیدیوں سے سلوک

امتیاز عاصی
عمر ایوب خان کا شمار تحریک انصاف کے سنیئر رہنمائوں میں ہوتا ہے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے وہ نواز شریف کابینہ میں خزانہ کے وزیر مملکت رہ چکے ہیں۔ گویا اس لحاظ سے وہ کوئی طفل مکتب نہیں البتہ جیلوں سے متعلق انہیں معلومات بالکل نہیں ہیں۔ بسا اوقات وہ ایسی بات کر جاتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ سیاسی رہنمائوں کو خواہ اخبارات میں یا ٹی وی پروگراموں میں بات کرنے کا موقع ملے عوام کو حقیقت سے باخبر کرنا چاہیے نہ کہ غیر ضروری باتیں کرکے عوام میں بے چینی پیدا کرنی چاہیے۔ ملک میں اس وقت جو سیاسی ماحول بن چکا ہے اس میں عوام کو حقیقت سے باخبر رکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے عوام الجھانے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی گزشتہ ایک سال سے جیل میں ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کا جیلوں میں جانا کوئی نئی بات نہیں۔ جو سیاست دان جیل یاترا نہیں کرتا وہ سیاست دان نہیں کہلا سکتا۔ وہ سیاسی رہنما جو جیلوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں یا ملک چھوڑ جاتے ہیں عوام بھی انہیں بھلا دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی مثال سب کے سامنے ہے جب کبھی مشکل وقت آیا ملک چھوڑ گئے جونہی حالات بہتر ہوئے وطن واپس آگئے۔ نواز شریف نے وطن چھوڑ کر جو کچھ حاصل کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ کئی مرتبہ چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود ابھی تک کسی ایک صوبے کا دورہ نہیں کر سکے ہیں جو ان کی عوام میں غیر مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عمران خان اس اعتبار سے سمجھدار ہیں وہ طاقت ور حلقوں کی آفر کے باوجود ملک چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے۔ جیل میں رہتے ہوئے عوام میں جو مقبولیت حاصل کی ہماری سیاسی تاریخ کا روشن باب ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں عمر ایوب خان نے جیل میں عمران خان کی قید تنہائی کا شکوہ کیا ہے۔ تعجب ہے عمران خان کو قیدیوں سے علیحدہ نہیں رکھا جاتا تو بیرکس میں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا؟ عمر ایوب صاحب جیلوں میں جب کوئی سیاسی رہنما یا کوئی پولیس ملازم بھیجا جاتا ہے انہیں حفاظتی نقطہ نگاہ سے بقیہ قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ جیلوں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح ان کی سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ عمران خان کو
قیدیوں اور حوالاتیوں سے علیحدہ رکھا جانا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ پولیس ملازمین کو قیدیوں حوالاتیوں سے علیحدہ اسی لئے رکھا جاتا ہے جیلوں میں بھیجے گئے ملزمان میں ہو سکتا ہے کسی پولیس ملازم نے قیدی یا حوالاتی کے خلاف مقدمہ کی تفتیش کی ہو۔ گویا حفاظتی نقطہ نظر سے سیاسی رہنمائوں اور سرکاری ملازمین کو عام قیدیوں اور حوالاتیوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جیلوں میں سیل ہوتے ہیں جہاں سیاسی قیدیوں اور حوالاتیوں کے علاوہ سرکاری ملازمین اور دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو رکھا جاتا ہے۔ عمر ایوب خان نے کہا ہے عمران خان نے 6اکتوبر سے سورج نہیں دیکھا ہے اور انہیں انفکیشن ہے۔ جہاں تک عمران خان کے سورج دیکھنے کی بات ہے سیلوں میں موسم کے لحاظ سے سورج کی کرنیں پڑتی ہیں۔ چونکہ سابق وزیراعظم کو سینٹرل جیل اڈیالہ کے ان سیلوں میں رکھا گیا ہے جو جیل اسکول کے قرب میں واقع ہیں تھوڑی بہت دھوپ ہر سیل کے باہر چیل قدمی کے لئے بنائی گئی جگہ تک ضرور آتی ہے البتہ سیلوں کے اندر یا بیرکس کے اندر دھوپ کم ہی آتی ہے۔ ایک اردو معاصر کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا ہے عمران خان کا ڈاکٹر باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں اور وہ روزانہ ورزش کرتے ہیں لہذا ان کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ٹی وی پروگرام میں عمر ایوب خان کو یہ بات بتانی چاہیے تھی وہ آخری بار عمران خان سے کب ملے تھے۔ باقی رہا عمران خان کا جیل میں رہنے کا مسئلہ تو جیل تو پھر جیل ہوتی ہے۔ آزاد دنیا اور جیلوں میں یہی فرق ہوتا ہے۔ عمران خان تو پھر خوش قسمت ہیں ذوالفقار علی بھٹو جب راولپنڈی کی پرانی جیل میں تھے انہیں عمران خان جیسی
سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جس سیل
میں رکھا گیا تھا اس میں بیت الخلاء تک نہیں تھی ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جیلوں میں سزائے موت کی چکیوں میں واش روم نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ اس مقصد کے لئے لوہے کے ٹین میں ریت ڈال کر رکھ دیا جاتا تھا۔ اس دور میں عمران خان کی طرح بھٹو کو نہ تو مرغن کھانوں کی سہولت تھی نہ ورزش کے لئے انہیں سہولتیں حاصل تھیں۔ ایک معروف عوامی لیڈر کو جو بھونڈے انداز میں رکھا گیا تھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایسے نہیں کہا تھا ملک میں دو وزیراعظم ہوتے ہیں۔ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کے پاس اختیار نہ بھی ہوں تو قید میں رہنے والے لوگ بے بس ہوتے ہیں انہیں جب چاہیں کسی دوسری جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ قیدیوں پر جیلوں کے ملازمین کے مظالم کی بات کریں تو انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے۔ بسا اوقات قیدی کچھ نہ کریں مبینہ طور پر وہ جیل ملازمین کو رشوت نہ دیں ان کے چالان نکال دیئے جاتے ہیں۔ ستم ظرفی دیکھئے ان کے ہسٹری کارڈ پر تحریر کر دیا جاتا ہے ( انتظامی امور)۔ مجھے یاد ہے جب 2003ء مجھے اڈیالہ جیل کی سزائے موت بی کلاس سے سینٹرل جیل ساہیوال بھیجا گیا جہاں اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ اور سابق آئی جیل جیل خانہ جات مبشر ملک تھے۔ جس قیدی کا ہسٹری کارڈ اٹھائیں انتظامی امور دیکھ کر وہ حیران تھے آخر اس قیدی نے کیا جرم کیا ہے جس کی پاداش میں اس کا چالان نکالا گیا ہے۔ جب میں چیف سیکرٹری جناب سلمان صدیق کے حکم پر سنٹرل جیل راولپنڈی واپس آیا تو میرا چالان نکالنے والا آفیسر چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم پر ہمیشہ کے لئے اڈیالہ بدر ہو چکا تھا۔ جیلوں کی تاریخ میں سیاہ کردار رکھنے والا ملازمت سے سبکدوشی کے بعد منظر سے غائب ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے میرا چالان نکالنے والے بدنام اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے وارنٹی وارث مرحوم نے پوچھ لیا اس قیدی کا نام کیوں بھیج رہے ہو، اس کا جواب تھا وہ تمہیں پیسے دیتا ہے۔ رشوت خور اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے پیسے نہ دینے کی پاداش میں میرا نام چالان کے لئے تین مرتبہ بھیجا تھا۔