Column

زندگی کا فلسفہ

تحریر : علیشبا بگٹی

یوں تو کسی نے کہا کہ زندگی گزارنے کے تین فلسفے ہیں۔
1۔ کچھ بھی نہ کیا جائے۔ یہ فلسفہ ان لوگوں کا ہے جو زندگی کی راہ میں آنے والی کسی بھی مشکل یا موقع کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے بدلنے یا روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہوا کے رخ پر چلنا اور کسی بھی اضافی کوشش سے بچنا ہی ان کا طریقہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک مرنا ہی سب کا مقدر ہے، چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، تو پھر کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
2۔ کچھ نہ کچھ کر لیا جائے۔ یہ درمیانی راستہ اختیار کرنے والے لوگ ہیں جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری کام کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جینا مجبوری ہے اور جب تک زندہ ہیں، کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔ یہ افراد دوسروں کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو دوسروں کے معمول ہیں۔ انہیں آپ مڈل کلاس بھی کہہ سکتے ہیں۔
3۔ سب کچھ کیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کا فلسفہ ہے کہ کسی بھی کام کو اس کے انتہائی انجام تک پہنچایا جائے۔ چاہے وہ خود کے لیے جینا ہو یا معاشرے کے لیے، پیسہ کمانا ہو یا نام یا شہرت حاصل کرنا، یہ لوگ اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جو کچھ بن پڑے، زندگی کے لیے کر گزرنا چاہیے۔ ایسے لوگ صرف پانچ فیصد ہی ہوتے ہیں، لیکن ان کی کوششیں اور عزم انہیں دوسروں سے ممتاز بناتے ہیں۔
یہ تین مختلف فلسفے زندگی کے مختلف نظریات اور طرز عمل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنی زندگی جینے کیلئے کون سا فلسفہ اپناتے ہیں۔
دُنیا کے مختلف ممالک میں زندگی کا فلسفہ مختلف ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کا فلسفہ یوبنٹو ہے۔ جس کے معانی انسا نیت کے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے اس فلسفے کو نوے کی دہائی میں نیلسن منڈیلاکے توسط سے زیادہ شہرت ملی۔ اس فلسفے کا بنیادی خیال انسانوں کا با ہمی تعلق اور ربط ہے۔ زندگی کے متعلق یوبنٹو کے مطابق انسانی خوشی اور کامیابی اسی میں ہے کہ لوگ مل جل کر رہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا سمجھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، بزرگوں کا احترام کریں، بچوں سے شفقت کریں وغیرہ۔ یوبنٹو کے متعلق ایک مقامی رہنما کے مطابق، میری ذاتی شناخت اس لیے ہے کیوں کہ یہی میری اجتماعی شنا خت ہے۔
اکی گایئی جاپان کا فلسفہ ہے۔ جس کے لفظی معنی ’’ جینے کی وجہ‘‘ کے ہیں۔ اس فلسفے کے مطابق زندگی میں سمت اور مقصد کا تعین ہے جو اسے جینے کے قابل بناتا ہے اورایک کامیاب زندگی کے لیے ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق جاپان کے جزیرہ اوکیناوا پر لوگوں کی طویل عمری کا راز بھی اکاگئی سے منسلک ہو سکتا ہے۔ یہاں کے لوگ جب تک ان کی صحت اجازت دیتی ہے اپنے من پسند کام سے جڑے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ اپنی زندگی میں سمت کا تعین کرنے کے بعد تمام تر توانایئاں اس میں لگا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس جاپانی نظریے کو اس قول سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ’’ خوش قسمت ہے وہ شخص جس کا شوق، اس کا پیشہ بن جائے‘‘۔
نونچی، کوریا کا فلسفہ ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں خوش و خرم زندگی گزارنے کے جس مقامی فلسفے کو اہمیت حاصل ہے وہ نونچی کہلاتا ہے۔ اس کے مطابق زندگی میں خوشی کا تعلق بہت حد تک آپ کی اس صلاحیت سے ہے آپ کس قدر مہارت اور چابک دستی سے دوسروں کے موڈ کو بھانپ سکتے ہیں۔ نونچی کا لفظی مطلب آنکھوں سے ماپنا ہے۔ مغربی اصطلاح میں اس کورین فلسفے کو اموشنل انٹلیجنس یا جذباتی ذہانت کہا جا سکتا ہے۔
بھوک اور بقا کیلئے تو گلی کوچوں میں آوارہ گھومنے والے کتے بھی آپس میں لڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن انسان کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی بنیادی اخلاقی اصولوں سے روگردانی نہ کرے۔ اور اپنے سے کمزور پر حملہ آور نہ ہو۔ کیونکہ طاقت محض کسی کمزور کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا نام نہیں۔ طاقتور کی طاقت کو دوام حاصل نہیں۔ لہٰذا اپنی طاقت کا ظالمانہ و بے رحمانہ استعمال کبھی نہ کرنا، کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی ظلم مکافات عمل بن کر ظالم کا پیچھا کرتا ہے۔ ہر کوئی مہلت پر چل رہا ہے۔ لیکن یہ مہلت کب تک ہے ؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سمجھنے کے لیے اگر آپ میں حوصلہ ہو تو ایک روز قبرستان میں جا کر دیکھیں۔ یہاں چاہے پورا دن نہ بھی گزاریں لیکن چند گھنٹے تنہائی میں ضرور بیٹھیں۔ آپ زندگی کا حقیقی فلسفہ جان جائیں گے کہ اس جہان سے اگلی دنیا تک کا سفر طے ہونے میں ایک لمحہ لگتا ہے۔ اور انسان کے دنیاوی اعمال کی بنیاد پر ہی اس کی آئندہ زندگی کا فیصلہ ہو گا۔
فلسفیوں کے نزدیک، کبھی لگتا ہے کہ زندگی محض محبت سے عبارت ہے، رشتے، ناطے، دوستیاں ہی اصل میں زندگی کی رونق ہیں، اور کبھی ایسے لمحے بھی آ سکتے ہیں جب آپ کو انہی لوگوں کے بارے میں سنگ دلانہ فیصلے کرنے پڑیں، جن کے بارے میں آپ نے کبھی ایسا سوچا ہی نہ ہو۔ کبھی یہ زندگی طوفان میں سمندر کی لہروں کی مانند بپھر جاتی ہے اور کبھی صحرا کی رات کی طرح ٹھہر جاتی ہے۔
خواہشات بذات خود خوشیوں کی قاتل ہیں۔ لہذا خواہشات کو محدود رکھیں، خود کو خواہشات کا غلام نہ بنائیں۔
زیرو ویسٹ زندگی گزارنے کا ایک فلسفہ ہے، جس کے تحت کچرا پیدا کرنے کو کم تر بنایا جاتا ہے اور مثالی طور پر صفر۔ یہ رویہ زندگی کے ہر شعبے اور عمل میں اپنایا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لیے کوئی خاص عمر، وقت، وسائل یا تجربہ درکار نہیں۔
زندگی کی فلاسفی کو سمجھنے کے لئے عقل و فہم کے ساتھ مطالعہ اور تجربہ کی ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان زندگی گزارنے کیلئے بڑی جستجو کرتا ہے اور بعض اوقات تھک جاتا ہے لیکن اسے پھر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ زندگی کے فلسفے کو سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش میں انسان مزید الجھ جاتا ہے۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزارنے کے لیے اسلام نے انسانوں کے جذبات و احساسات کی قدر دانی اور باہمی احترام و رواداری کو قائم کرنے کی قدم قدم پر تاکید کی ہے، نیز ہر ایسے عمل سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، جس سے انسانی جذبات مجروح ہوتے ہوں اور انسانوں کو معمولی اذیت پہنچتی ہو۔
سچ پوچھیں تو زندگی کا اصل فلسفہ فنا کے بعد اگر کچھ ہے تو بقول شاعر:
کسی کے پاس بہت کچھ ہے خدا کا دیا ہوا
کسی کے پاس سوائے خدا کے کچھ بھی نہیں

جواب دیں

Back to top button