Column

عوام کی التجا

ندیم ملک

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ان چند سالوں میں اس حد تک اضافہ ہوا ہے کہ لوگ گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں وہ حکومت جو مہنگائی کے خاتمے کا ایجنڈا لے قابض ہوئی تھی اس نے چند سالوں میں عوام کو حواس باختہ کر دیا ہے بلوں میں ٹیکسوں کے اضافے نے فیکٹریاں بند کر دی ہیں جس سے مزدور بے روزگار ہوگئے بڑے بڑے بازار جہاں عوام کا جم غفیر ہوتا تھا وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے دکاندار سارا دن گاہک کے منتظر رہتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی مہینے کے آخری دنوں کرایہ دار طبقے اس قدر
ڈپریشن کا شکار نظر آتے ہیں کہ جس کی انتہا نہیں پی ٹی آئی کو دھرنوں سے فرصت نہیں حکومت غریب عوام کے خاتمے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہے بیچارے پاکستانی غریب عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں مزوری کے پاس کرنے کے لیے مزدوری نہیں تاجر برادری کی طرف سے کوئی ایکشن نظر نہیں آ رہا بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ چند پیسوں میں فروخت ہونے والی جگہ کی خاطر بیٹا باپ اور بھائی بھائی کا قاتل بنا ہوا ہے خون سفید ہو چکا ہے اعلیٰ حکام کرسیوں پر
براجمان تماشہ دیکھ رہے ہیں غریب طبقہ غربت کے دلدل میں اس قدر پھنس چکا ہے جس میں فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا، یہ صورت حال دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے یہ سب حکومت کی ناکام پالیسیوں کی
بدولت ہو رہا ہے، اس صورتحال کے تناظر میں امیر مینائی کا شعر یاد آتا ہے
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کیا ملک میں معاشی صورتحال ایسی ہی رہے گی؟ اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ملک میں چند حکمران اور اداروں کو کوئی نہیں رہے گا خدارا جو وعدے آپ نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کیے تھے اس کو یاد کریں اور ان غریب عوام کا سوچیں یہ بھی اسی وطن کے باشندے ہیں ان کا کیا قصور ہے جو ان پر ظلم کے پہاڑ گرائے جا رہے ہیں، ان کا قصور یہ ہے کہ یہ پاکستان میں پیدا ہوئے؟ پیدا ہوتے ہی آنکھ کھولنے والے بچے پر قرضے کا بوجھ پڑ جاتا ہے آئی ایم ایف نے قرضوں کے پہاڑ کے نیچے ایسا دبایا ہے کہ سانس لینا محال ہے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب نے لکھا تھا
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button