Column

طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

تحریر : صفدر علی حیدری
صدر رجب ایردوان کہتے ہیں ’’ عالمی برادری اسرائیل کے تمام تر خطے کو آگ میں جھونکنے والی اس جارحیت اور  غنڈہ گردی کے سامنے مزید خاموش تماشائی نہیں بن سکتی ‘‘۔
اسرائیل نے لبنان پر اپنے حملوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور گزشتہ 2ہفتے میں اسرائیلی حملوں میں بچوں کی ایک کثیر تعداد سمیت 1000سے زائد لبنانی جان بحق ہوئے ہیں‘‘۔ رجب ایردوان نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج اسرائیلی حملوں کی زد میں ہونے والے فلسطین اور لبنان سے تعاون کا مطلب انسانیت ، امن اور مختلف عقائد کے بقائے باہمی کی ثقافت کا تحفظ ہے۔ غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں جاری مظالم کیخلاف سب سے سخت رد عمل اسلامی ممالک کو دینا چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ظلم کو روکنے میں پوری دنیا کی قیادت کرنی چاہیے۔ اسرائیل کے حملوں کے برخلاف اصل اہم چیز مسلم اُمہ کا موقف ہونے پر توجہ مبذول کراتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ آنکھوں میں خون اور نفرت بھرے مٹھی بھر کٹر صیہونی ہمارے خطے اور پوری دنیا کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔ ہم اس ظلم و بربریت کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اسرائیلی غنڈہ گردی کے خلاف عالمی برادری مزید خاموش نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے اپیل کی کہ ہمارے خطے کے باسیوں کے امن و امان کے لی مسلمانوں، یہودیوں ، عیسائیوں اور عالمی برادری سمیت مسلم امہ سمیت ہر کس کو ضروری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایردوان نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کو حماس کی طرف سے قبول کرنے کا اعلان کردہ جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اقتصادی، تجارتی اور سفارتی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس بے حسی پر انہیں سخت تکلیف پہنچی ہے۔
طیب ایردوان عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ایک مسلمان رہنما کے طور پر عالمی طور اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں ۔ ان کے بیان کے ہر ایک حرف پر مکمل اتفاق ہے مگر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟ دنیا جانتی کہ فلسطین پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے بعد ، اب اسرائیل کا رخ لبنان کی طرف ہو گیا ہے ۔ اگر کوئی اسے روکنے والا ہوتا تو فلسطین پر چڑھائی کے بعد اسے کسی اور کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہوتی مگر کیا کیا جائے کہ عالمی برادری بے حسی کی انتہا پر ہے ۔ انھیں مظلوم مسلمانوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں ۔ اقوام متحدہ کا ادراہ بجائے اپنا کردار ادا کرنے کے امریکہ اور اسرائیل کے آگے کٹھ پتلی بن چکا ہے۔ وہ امن کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ انیس سو پینتالیس میں، لیگ آف نیشنز کے خاتمے کے بعد جب اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی تو کمزور ممالک کو یہ امید بندھی کہ اب ان کی بھی سنی جائے گی مگر۔۔ ان کی خوشی منٹو کے ایک افسانے ’’ نیا آئین ‘‘ کے کردار استاد منگو جیسی تھی۔ اتفاق سے ان کے ساتھ بعد ہوا بھی استاد منگو کوچوان جیسا ہی بلکہ اس سے بھی بدتر کہ استاد منگو نے جوش میں آ کر ایک انگریز کی دھلائی کر دی تھی، جس کے نتیجے میں اسے بھی بعد میں خوب دھویا گیا مگر غریب ممالک ( خصوصاً مسلمان ممالک ) نے تو ایسی کسی حرکت کا سوچا تک نہیں پھر ان کے ساتھ استاد منگو سے بھی بدتر سلوک کیا گیا۔ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی فائلوں تلے دب کر کب کا دم گھٹنے سے ہلاک ہو چکا ۔ فلسطین کے لوگ روز چھ نمازیں پڑھتے ہیں۔ چھٹی نماز ، نماز جنازہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔
25اپریل ، 1945ء سے 26جون، 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ یا United Nationsکا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24اکتوبر، 1945ء میں معرض وجود میں آئی ۔1945ء میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخطوں کی تقریب ہوئی، اس کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ’’ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدر و منزلت کرینگے۔ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے ۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔ لہذا یہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے رواداری اختیار کرینگے۔ ہمسایوں سے پر امن زندگی بسر کریں گے۔ بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں گے۔ نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں اس بات کا یقین دلائیں کہ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ قوموں کے درمیان میں دوستانہ تعلقات کو بڑھائیں گے۔ بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کریں گے، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کریں گے۔ ایک ایسا مرکز پیدا کریں گے جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔ ہر امن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کر سکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے‘‘۔
شروع شروع میں اس کے صرف 51ممبر تھے ۔ بعد میں بڑھتے گئے۔ سکیورٹی کونسل یا سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی ارکان کو معطل یا خارج کر سکتی ہے۔ اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔ سلامتی کونسل معطل شدہ ارکان کے حقوق رکنیت کو بحال کر سکتی ہے۔ اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193ہے ۔
یہ تو تھیں اقوام متحدہ کے حوالے سے کچھ معلومات، اب ان کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ اس ادارے نے اپنے اہداف کو حد تک مکمل کیے ہیں، فلسطین میں ہزاروں افراد کی شہادت کے بعد یہودی درندے لبنان پر حملہ آور ہو چکے ہیں ۔ ایرانی صدر کی شہادت ، اسماعیل ہانیہ کی ایران میں شہادت کے بعد ، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اور ان کے ساتھیوں کی الم ناک شہادت نے اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے ۔ اسلامی دنیا کی حکمرانوں کی بے حسی اور غفلت نے صیہونیوں کو بے باک کر دیا ہے ۔ ایران واحد مملکت ہے جو یہودیوں کے آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔ ایران واحد اسلامی ریاست ہے جس نے اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چند روز قبل اس نے اسرائیل پر دوسری بار حملہ کر کے یہ بتایا ہے کہ ابھی اس خاک میں چنگاری باقی ہے۔ مشرق وسطیٰ کا امن تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ اقوام عالم کی خاموشی اور اقوام متحدہ کی بے حسی مسلمانوں کو آٹھ اٹھ آنسو رلا رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا دنیا یونہی خاموش رہے گی ؟، کیا پچاس سے زائد اسلامی ممالک یونہی خواب غفلت میں گرفتار رہیں گے ؟، کیا ایران کو تنہائی کا سامنا رہے گا ؟، کیا ترکی بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گا۔
اقبالؒ نے ایک صدی قبل بجا طور پر کہا تھا
ایران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرہِ ارض کی تقدیر بدل جائے!
سو نظریاتی اختلافات کے باوجود ایران کو سلامِ عقیدت پیش کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔ ایران کے اعلٰی سیاسی قیادت، عسکری قیادت اور مذہبی اعلیٰ قیادت کو سرخ سلام اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
پانی بھی مسخرّ ہے، ہوا بھی ہے مسخرّ
کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پِیر بدل جائے!
دیکھا ہے مُلوکِیّتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اُس خواب کی تعبیر بدل جائے!
طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جنیوا
شاید کُرہ ارض کی تقدیر بدل جائے!
خبر آئی کہ ایران آٹھویں ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہوئی ۔ یہ ایک خوشی کی خبر ہے ۔ ایران پر عالمی پابندیوں میں اور اضافہ ہو گا۔ ایرانی عوام کو آنے والے دنوں میں کئی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔
کیا دیگر مسلمان ممالک اپنے برادر اسلامی ملک کو تنہا چھوڑ دیں گے ؟۔

جواب دیں

Back to top button