2005ء کا زلزلہ اور پاک فوج

تحریر : عبد الباسط علوی
اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے مجھے پنجاب کے ایک حساس مقام پر جانا پڑا ۔ پراجیکٹ کی نوعیت کی وجہ سے ہماری نقل و حرکت محدود تھی اور سائٹ چھوڑنے کے لیے اجازت کی ضرورت تھی ۔ میرے ساتھ ایک اور انجینئر بھی تھا اور ہمارا کام ایک مشین کی مرمت اور دیکھ بھال کرنا تھا ۔ ہم 7اکتوبر 2005ء کو رات گئے اپنی منزل پر پہنچے جہاں خوشدلی سے ہمارا استقبال کیا گیا ۔ ہمارے تفویض کردہ سلیپنگ کوارٹرز میں جانے سے پہلے ہمیں بہترین کھانا پیش کیا گیا ۔ اگلا دن، 8اکتوبر 2005ء کا تھا جو نارمل روٹین کی طرح کا ہی تھا۔ ہم جلدی اٹھے ناشتہ کیا اور پھر ناکارہ مشین کی جگہ پر چلے گئے ۔ صبح 8:30بجے کے لگ بھگ ہم نے مشین کا ابتدائی معائنہ کیا اور اس کے دستی اور تشخیصی طریقہ کار کا جائزہ لیا ۔ کئی ٹرک قریب ہی کھڑے تھے ۔ میں اور میرا ساتھی مشین کی آپریٹرز سے گفتگو میں مصروف تھے اور جیسے ہی 8:52کا وقت ہوا تو اچانک زمین نے زور زور سے ہلنا شروع کردیا ۔ شدید زلزلے کے جھٹکوں نے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ، جس کی وجہ سے قریب کھڑے ٹرک بھی ہلنا شروع ہو گئے۔ ہم فوراً زمین اور بیٹھ گئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنا شروع کر دیا ۔ شدت کے جھٹکوں کا سلسلہ لک بھگ ایک منٹ تک جاری رہ کر تھم گیا۔
ایک بار جب حالات پرسکون ہو گئے تو میرا پہلا خیال فطری طور پر میرے خاندان کی طرف چلا گیا جو اس طرح کے حالات میں ایک عمومی ردعمل ہوتا ہے۔ میرے والدین ، بہن بھائی ، بیوی اور ہماری نوزائیدہ بیٹی ( اس وقت صرف چار دن کی تھی، جسے ہم پیار سے ’ زلزلہ بے بی‘ کہتے تھے) اسلام آباد میں تھے ، جبکہ میرا باقی خاندان مظفر آباد سمیت آزاد جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں رہتا تھا ۔ میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ اگر ہماری موجودہ جگہ پر اتنا شدید زلزلہ آیا ہے تو پہاڑی علاقوں میں اسکی شدت کہیں زیادہ ہوئی ہوگی۔ شدید پریشانی کی حالت میں، میں اور میرا ساتھی کنٹرولنگ اتھارٹی کے دفتر پہنچ گئے۔ چیف نے قابل ذکر تعاون کیا۔ اس وقت موبائل فون اتنے عام نہیں تھے اور طاقتور زلزلے نے مواصلاتی لائنوں کو بری طرح متاثر کیا تھا ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق مظفر آباد اور اسلام آباد کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ ان کے الفاظ مجھ پر ایٹم بم کی طرح لگے اور میں اپنے آنسو نہ روک سکا ۔ میں اسلام آباد اور مظفر آباد میں اپنے خاندان سے رابطہ کرنے سے قاصر تھا کیونکہ ان علاقوں میں فون بند تھے۔ چیف نے ہماری روانگی کو آسان بنانے کے لیے سرعت سے ہمیں نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ ( این او سی) جاری کیا۔ ہمارے پاس اپنی کمپنی کا موبائل فون تھا لیکن موٹر وے کی طرف جاتے ہوئے لنک روڈ پر نیٹ ورک سگنل نہیں تھے۔ جیسے موبائل سگنل آئے تو میں نے فوراً اسلام آباد میں اپنے اہل خانہ کو فون کیا۔ انہوں نے مجھے تسلی دی کہ وہ محفوظ ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ مظفر آباد میں خاندان کے دیگر افراد رابطہ نہیں کر سکے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد میں مارگلہ ٹاورز منہدم ہو گئے تھے اور مظفر آباد شدید متاثر ہوا تھا ۔ اسی پریشانی کی حالت میں اسلام آباد پہنچ کر بعد ازاں مجھے مظفر آباد، بالاکوٹ اور دیگر متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں مزید پتہ چلا جو خاصی تکلیف دہ تھی۔ میرے خاندان کے کئی لوگ زخمی ہوئے اور مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن شکر ہے کہ ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ دیگر لوگوں کے جانی اور مالی نقصانات پر دل انتہائی رنجیدہ تھا۔ ہلاکتوں اور نقصانات کی رپورٹوں نے بعد میں اس سے بھی زیادہ سنگین اعداد و شمار کا انکشاف کیا ۔ ریکٹر اسکیل پر 7.6کی شدت کے زلزلے نے آزاد کشمیر اور کے پی کے کے مختلف علاقوں کو متاثر کیا ۔ نومبر 2005ء میں سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد 87350تک پہنچ گئی اور ان کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرنے کا اندیشہ تھا۔ تقریبا 38000افراد زخمی ہوئے اور 3.5ملین سے زیادہ بے گھر ہوگئے ۔ ہلاک ہونے والوں میں 19000بچے بھی شامل تھے جو اسکول کی عمارتوں کے گرنے سے جاں بحق ہوگئے ۔ اس تباہی نے 500000سے زیادہ خاندانوں کو شدید متاثر کیا ، جس کے نتیجے میں تقریبا 250000جانور ہلاک ہوئے اور 500000سے زیادہ جانوروں کو شدید سردی میں پناہ کی اشد ضرورت تھی ۔ مزید برآں ، 780000سے زیادہ عمارتیں یا تو تباہ ہو گئیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ۔ بہت سی عمارتیں طویل عرصے تک ناقابل استعمال رہیں جن میں تقریبا 17000اسکول کی عمارتیں اور زلزلے کے مرکز کے قریب واقع زیادہ تر بڑے ہسپتال شامل تھے ، جو یا تو تباہ ہو گئے تھے یا انہیں بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا ۔ اہم بنیادی ڈھانچے ، خاص طور پر اہم سڑکوں اور شاہراہوں کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور لینڈ سلائیڈنگ اور پل ٹوٹنے کی وجہ سے سڑکوں کی بندش ہوئی ۔ کچھ علاقے زلزلے کے بعد تین ماہ تک زمینی راستوں سے منقطع رہے ۔ بجلی ، پانی کی فراہمی اور ٹیلی مواصلات کی خدمات میں بہت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ان میں سے زیادہ تر چند ہفتوں کے اندر بحال ہو گئیں ۔ زلزلے نے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کو جنم دیا اور فالٹ لائن کے اردگرد والے علاقوں میں ناقابل بیان تباہی ہوئی ۔ بعد کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ نقصانات ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ تھے ۔
زلزلے کے بعد علاقے میں فوری طور پر پہنچنے والا پہلا ادارہ پاک فوج تھی جس نے فوری طور پر بچائو اور امدادی کارروائیاں شروع کیں ۔ پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں نے زخمیوں کو نکالنے اور اسپتالوں تک پہنچانے کے لیے متاثرہ علاقوں میں مسلسل پروازیں کیں ۔ انہوں نے بچائو، امداد ، بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے مختلف پہلوئوں میں اہم کردار ادا کیا اور اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کی متاثرہ علاقوں تک رسائی میں بھی سہولت فراہم کی ۔ ایسے نازک لمحات میں فوج کی خدمات مثالی رہیں۔ آفات کے دوران پاکستانی فوج کا کردار قابل ذکر رہا ہے اور 2005ء کے زلزلے نے ان کی لگن اور جذبے کی ایک بہترین مثال کے طور پر کام کیا ۔ فوج کی ان انتھک کاوشوں نے ان عاقبت نااندیش لوگوں کو منہ توڑ جواب دیا جو کہتے ہیں کہ فوج آخر کرتی کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاک فوج کے سیکڑوں جوان بھی شہید ہونے والوں میں شامل تھے اور فوج ایک طرف اپنے جوانوں کی لاشیں اٹھائے ہوئے تھی اور ساتھ ہی عام لوگوں کی مدد میں بھی پیش پیش تھی۔ پوری قوم 2005ء کے زلزلے کے دوران پاک فوج کی غیر معمولی مدد کو تسلیم کرتی ہے اور ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی ضامن مسلح افواج کو سلام پیش کرتی ہے۔





