Column

رشتے بوجھ نہیں ہوتے

تحریر : علیشبا بگٹی
جنگ عظیم دوئم کے دوران لی گئی ایک آٹھ سالہ بچے کی تصویر بڑی مشہور ہوئی ہے۔ جس نے اپنی پیٹھ پر جنگ کے دوران مر جانے والے اپنے چھوٹے بھائی کی لاش اٹھائی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں یہ بچہ اپنی پیٹھ پر لاش اُٹھائے پیدل بڑی دور سے آیا تھا۔ اب اس کی تدفین کا منتظر تھا، کہ ایک فوجی نے اسے دیکھ کر ہمدردی سے کہا۔ بیٹا ’ یہ بوجھ یعنی وزن بھاری لگ رہا ہے تو میں اُٹھا لوں‘ ۔۔ تو بچے نے جواب دیا ’ یہ بوجھ نہیں میرا بھائی ہے‘۔۔
اس بچے کے جواب سے یہ ثابت ہوا کہ رشتے بوجھ نہیں ہوتے، بس نبھانے کے لیے سوچ حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ یوں تو رشتوں کا ایک وزن ہوتا ہے مگر رشتوں کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے رشتوں کا بوجھ اُٹھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
انسانوں کے آپسی رشتے اور تعلقات زندگی کا ایک خوبصورت حصہ اور تجربہ ہیں، لیکن ان کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اکثر ہمیں دیر سے ہوتا ہے۔ ہمارے روزمرہ کے معاملات، کام کی مصروفیات، ذاتی مسائل بعض اوقات بے جا عناد ، انا ، حسد ہمیں اس قدر گھیرے رکھتے ہیں کہ ہم دوسروں کی اہمیت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ پھر دوریوں میں یہ خوبصورت رشتے وقت کی تیز اور بے رحم دھارا میں دور بہہ جاتے ہیں اور انسان ایک دوسرے سے جدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تب جب ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے، تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ جبکہ وقت پر ایک چھوٹا سا عمل، محبت بھرا لفظ، مدد یا ہمدردی کا اظہار، زندگی کے سفر کو نہ صرف خوبصورت بناتا ہے، خوشیاں بکھیرتا ہے بلکہ تعلقات میں مضبوطی بھی پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنے میں دیر ہو جانا کہ کس چیز کی اہمیت کتنی ہے، زندگی کے بعد آنے والے پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔ ایک پھول، جو وقت پر دیا جائے، محبت اور قدر کا خوبصورت اظہار ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک علامت نہیں، بلکہ دل کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ جب ہم کسی کو وقت پر اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتے، تب حالات کے بدلنے کے بعد اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک مردہ کو لاکھ خوبصورت پھول پیش کیے جائیں، پھر کیا فائدہ ؟۔
اسی طرح، جب ہم کسی انسان کو وقت پر تسلی، محبت یا کچھ میٹھے لفظ نہیں دیتے، بعد میں چاہے کتنی ہی کوشش کریں، وہ تعلق اور احساسات واپس نہیں آتے۔ ایک سادہ سا لفظ، ایک لمحے کا احساس، اور وقت پر کی گئی بات بعد میں کی گئی بڑی بڑی کوششوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
اسی سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم اکثر لوگوں کی مشکلات یا ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے جب وہ ہمارے سامنے ہوتی ہیں۔ ہمیں ان کے درد اور مشکلات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ ہم سے دور ہو جاتے ہیں، یا پھر وقت ان کے لیے ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھو دیا۔ زندگی ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم دوسروں کی قدر کریں، ان سے محبت کریں اور ان کے ساتھ اپنے جذبات کو شیئر کریں، لیکن اکثر ہم یہ موقع ضائع کر دیتے ہیں۔ ہم زندگی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ کسی کے لیے ایک سادہ سی تعریف، ایک مختصر سا محبت بھرا لفظ یا بروقت ہمدردی کا اظہار آپ کے اور ان کے تعلقات میں انقلاب لا سکتا ہے۔ لوگوں کی قدر کریں، جب وہ زندہ ہوں، تاکہ آپ کو کبھی یہ نہ کہنا پڑے کہ کاش میں نے وقت پر ان کی قدر کی ہوتی۔ وقت، رشتے اور دوست انسان کو مفت میں ملتے ہیں، اور ان کی قدر ان کو کھونے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے رشتوں کی قدر کیجئے۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ رشتے درختوں کی مانند ہوتے ہیں، بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر اور بعض اوقات ہم اپنی انا کی تسکین کے لیے انہیں کاٹ دیتے ہیں اور گھنے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پتے جب تک پیڑ سے لگے رہتے ہیں، سر سبز و شاداب رہتے ہیں، اور جب پیڑ سے علیحدہ ہو جاتے ہیں تو اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ اپنے رشتوں سے جڑے رہیں، کیونکہ انہی رشتوں کی محبت، خلوص اور چاشنی میں زندگی خوشگوار رہتی ہے اور اسی میں زندگی کی بقا ہے۔ انسانی زندگی ایک درخت کی مانند ہوتی ہے۔ جس سے جڑے سارے رشتے ہری بھری ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ٹہنیاں سوکھ جائیں، تو پورا درخت سوکھ جاتا ہے۔ زندگی کے اس درخت کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے ٹہنیوں کا ہرا بھرا رہنا ضروری ہے۔ اگر رشتوں میں ذرا سی بھی غلط فہمی جنم لینے لگے تو رشتوں کی یہ ٹہنیاں آہستہ آہستہ سوکھ کر ٹوٹ کر بکھرنے لگتی ہیں۔ ان کو بکھرنے سے بچانے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور جھکتا وہی ہے جس کو رشتوں کی قدر معلوم ہو، رشتوں کو نبھانے کا شعور ہو۔ رشتوں کا خیال رکھنا اور انہیں پروان چڑھانا بھی اسی قدر لازم ہے، جس قدر کھانا پینا اور سانس لینا۔ رشتہ خون کا ہو، یا دوستی کا ہو، اپنے خلوص اور محبت سے ان کی آبیاری کرتے رہیں، جس طرح ایک پودے کو پانی مٹی اور ہوا کی ضرورت ہے، اسی طرح رشتوں کو پنپنے کے لئے، مضبوط اور خوشگوار بنانے کے لیے احساس، پیار اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔ رشتوں کی گہرائی کا احساس برتائو اور رویوں سے ہوتا ہے۔ بس کاش ہم یہ بات سمجھیں کہ رشتے بوجھ نہیں ضرورت ہوتے ہیں۔ ضروری ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button