Column

انجام کی طرف بڑھتا نظام

تحریر : سیدہ عنبرین
اسلام آباد ڈی چوک میں ہونے والا میچ وفاقی حکومت نے کھل کھیل کر جیت لیا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق ریاست کے تمام ستونوں کی کارکردگی تسلی بخش رہی، کھیل کا آغاز میچ شروع ہونے سے دو روز قبل ہی کر دیا گیا تھا، نیک کام کا آغاز اسلام آباد سے ہوا، پھر اس کا دائرہ کار پنجاب اور بالخصوص لاہور تک بڑھاتے ہوئے ناپسندیدہ عناصر کے گھروں پر چھاپوں اور گرفتاریوں سے ہوا، جس گھر سے مطلوبہ شخص نہ ملا اس تک پہنچنے کیلئے گھر میں موجود اس کے عزیز و اقارب، بھائی بہن، بیوی اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا گیا، ممبران قومی اسمبلی پی ٹی آئی کی تلاش میں گھروں کا کونہ کونہ چھان مارا گیا، کیونکہ چند روز میں آئینی ترامیم کی منظوری کے حوالے سے ان کا کردار اہم ترین ہے، اگلے مرحلے میں کنٹینر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد آنے اور جانے والے تمام راستوں پر کنٹینر لگا دیئے گئے، اس مرتبہ نئے وجدان کے مطابق کنٹینر کے اوپر کنٹینر اس کے آگے اور پیچھے کنٹینر لگائے گئے تاکہ شرپسند عناصر انہیں دھکیلتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن نہ ہوں۔ کنٹینروں میں مٹی اور پتھر بھی ڈالے گئے تاکہ اس ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بولے، مزید احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بعض مقامات پر مرکزی شاہراہوں پر خندق کھود دی گئی، تاکہ دفاع کو یقینی بنایا جا سکے، بہتر ہوتا بنائی گئی خندقوں میں پانی اور پانی میں کرنٹ بھی چھوڑا جاتا تاکہ اسے عبور کرنے کی جرات کرنے والے موقع پر ہی فل فرائی ہو جاتے، اس کمی کا خمیازہ بھگتنا پڑا، مختلف شہروں اور خصوصاً صوبہ خیبر سے آنے والے قافلے خشک خندق کو عبور کر کے کنٹینروں کو ہٹاتے ہوئے ڈی چوک پہنچنے لگے، شرپسند عناصر کی ایک بڑی تعداد گزشتہ دو برس سے ٹریننگ کے مراحل سے گزر رہی تھی، یہ لوگ آنسو گیس شیلز کی برسات، لاٹھیوں کی ٹھکا ٹھک، واٹر کینن کے استعمال برائے غسل اور ربڑ کی گولیوں سے زخم کھانے کے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم کورسز پاس کر چکے تھے، لہٰذا انہیں کوئی بھی رکاوٹ پار کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئی، ڈی چوک پہنچنے والوں کی ایک بڑی تعداد دو روز قبل ہی راولپنڈی، اسلام آباد پہنچ چکی تھی، انہیں خوب اندازہ تھا کہ سالگرہ کے دن وہاں پہنچنا مشکل ہو گا، مری روڈ پر آ کر ختم ہونے والی گلیاں خوب آباد رہیں، حکم کے مطابق بازار، دکانیں بند کرا دی گئیں، سکول، کالج، دفاتر بند کر دیئے گئے، موبائل فون، نیٹ ورک آف کر دیا گیا، ان تمام انتظامات کے باوجود جنہوں نے جہاں پہنچنا تھا، وہ وہاں پہنچے، دور دراز سے آنے والوں کی خدمت کیلئے 30ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا تھا۔ ایک بڑی نفری پنجاب سے منگوائی گئی، لیکن دل کو تسلی نہ ہوئی لہٰذا صوبہ سندھ سے خصوصی درخواست کر کے ایک ہزار پولیس اہلکار وہاں سے منگوائے گئے، ایک ہزار اہلکاروں کو سندھ سے منگوانے پر حکومت کو دوہرا ثواب ہو گا کیونکہ اسی بہانے انہوں نے اسلام آباد دیکھ لیا جو عام آدمی کراچی سے چل کر نہیں آتا اور خوبصورت دارالحکومت نہیں دیکھ سکتا، ان پولیس اہلکاروں کو عمدہ کارکردگی دکھانے کے بعد بطور انعام مری کی سیر سرکاری خرچ پر کرانی چاہئے۔
شام ڈھلے صوبہ خیبر کے وزیراعلیٰ اپنے جلوس کے ساتھ اسلام آباد کے دروازے پر پہنچے، خندق راہ میں حائل ہوئی، رات وہیں بسر کرنے کے بعد صبح سفر احتجاج ایک مرتبہ شروع ہوا، جس کے بعد آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی، پھر لاٹھی چارج، پولیس پسپا ہو گئی، جس کا 100فیصد امکان ہوتا ہے، اسی لئے دوسرے مرحلے پر رینجرز تعینات کئے گئے تھے لیکن فیصلہ ساز خوب جانتے تھے کہ ’’ گل ودھ گئی ہے‘‘ معاملہ شاید رینجرز سے کنٹرول نہ ہو سکے، لہٰذا اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا گیا، جس نے رات 12بجے کے بعد پوزیشنز سنبھال لیں، احتجاجی قافلہ آنسو گیس کے گھونٹ پیتا، ربڑ کی گولیاں کھاتا آگے بڑھتا رہا، ایک نوجوان نے قمیض اتار کر اپنی کمر میڈیا کو دکھائی، جسے 7گولیاں لگی تھیں، اس کا سر آنسو گیس شیل لگنے سے زخمی ہوا تھا۔ شرکاء احتجاج کے ساتھ دیانتداری کا سلوک نہیں کیا گیا، ضروری تھا کہ آنسو گیس کا تازہ ترین سٹاک کام میں لیا جاتا، جو شیل استعمال کئے گئے وہ ایکسپائرڈ تھے، عام آدمی کی قسمت میں ایکسپائرڈ ادویات، ایکسپائرڈ کھانے اور ایکسپائرڈ آنسو گیس شیل ہی لکھے ہیں، دم بدم بگڑتی صورتحال کے پیش نظر فریش سٹاک کا آرڈر دے دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا ہائوس پہنچنے کے بعد وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔ وزیر داخلہ نے فرمایا وہ پولیس کے پاس ہیں نہ کسی اور نے انہیں گرفتار کیا ہے، گمان ہے انہوں نے خیبر پختونخوا ہائوس پہنچ کر ایک سیڑھی لگائی اور آسمان کی طرف رخ کر گئے ہیں، شاید انہوں نے بادلوں میں بستر لگا لیا ہے، قدم قدم پر لگے کیمروں نے اس وقت آنکھ میچ لی، لہٰذا ان کی آسمان کی طرف پرواز کا منظر ریکارڈ نہیں ہو سکا، ان کے صدر دروازے سے داخل ہوتے اور پھر باہر جانے کا ایک کلپ پیش کیا گیا ہے، جس میں وہی غلطی نظر آتی ہے جو عموماً ہماری فلموں میں پکڑی جاتی رہی ہے، جاتے ہوئے لباس کچھ اور ہے نکلتے ہوئے لباس تبدیل ہو چکا ہے اور چہرہ بھی چھپانے کی کوششیں نظر آتی ہیں، جانے والا اصلی اور باہر نکلنے والا جعلی تھا، ان کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا، اس وقت وہ وہاں موجود تھے، اس کے بعد سے کسی کو ان کی خبر نہیں، سکرپٹ میں جھول نظر آتا ہے، ڈائریکٹر نکما ہے، پہلے شو میں فلم فیل ہو گئی ہے، نیلی وردی والے گاڑی کا شیشہ توڑتے نظر آئے، واردات سامنے آ گئی، اپوزیشن پر الزام لگایا جاتا رہا کہ انہیں کچھ لاشوں کی تلاش ہے تاکہ وہ معاملے کو بھڑکا سکیں، اپوزیشن بہت بد قسمت ہے، ایک لاش حاصل نہیں کر سکی، ان کے مقابلے میں سرکار کی خوش قسمتی دیکھئے اسے وہ لاش مل گئی ہے، یہ 60سالہ حمید شاہ پولیس کانسٹیبل ہے، جسے چند ماہ بعد ریٹائر ہونا تھا، اس کے قتل کے الزام میں اب سو افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنا آسان ہے، ان میں ایسے لیڈروں اور کارکنوں کو بھی نامزد کرنا چاہئے جو وہاں موجود نہیں تھے، بالکل ایسے جیسے شاہ محمود قریشی گھیرائو اور جلائو کے مقدمے میں گرفتار ہیں۔ یکے بعد دیگرے مقدمات کی برسات ہے، بڑے گنہگار ہیں اس لئے آج تک ضمانت نہیں مل سکی۔ خیبر پختونخوا میں گورنر راج تیار ہے، جس کے بعد حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ انتقام ترجیح اول نظر آتا ہے، افہام و تفہیم کی بات اس وقت شروع ہو گی جب پانی سر سے گزر جائے گا، سسٹم سمٹ جائے گا۔ انجام کی طرف بڑھتا نظام آخری سانسیں لے رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button