FC۔31فائٹر جیٹ کے حصول کی وجہ سے پاک فضائیہ بھارت سے آگے

ڈاکٹر ملک اللہ یار خان
( ٹوکیو)
پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ افسر ائیر کموڈور ضیاء الحق شمسی کے مطابق ایف سی 31کے حصول سے پاکستان کو اگلے 12 سے 14سال تک ہندوستانی فضائیہ پر سٹریٹجک برتری حاصل ہو گی، پاکستان کا چین سے پانچویں نسل کا لڑاکا طیارہ، FC31Gyrfalconحاصل کرنے کا فیصلہ، اپنی فضائیہ کو فضائی صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنے روایتی مخالف، بھارت پر نمایاں برتری فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے اس مدت کے اندر پانچویں نسل کی لڑاکا صلاحیتیں حاصل کرنے کی توقع نہیں ہے، جس سے پاکستان کو ایک اہم اسٹریٹجک بالادستی حاصل ہوگی۔ اس سال کے شروع میں، پاکستان ایئر فورس نے چین کی شینیانگ ایئر کرافٹ کارپوریشن کی طرف سے تیار کردہ FC۔31 Gyrfalcon حاصل کرنے کے اپنے ارادے کا اشارہ دیا۔
پی اے ایف کے چیف آف اسٹاف ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے مبینہ طور پر گزشتہ سال ایک تقریب میں بتایا تھا کہ ایف سی31جلد ہی فضائیہ کے ساتھ سروس میں داخل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایف سی 31کے حصول میں آسانی کے لیے بات چیت ہو چکی ہے، جو جلد ہی پاک فضائیہ کا حصہ بن جائے گا۔ حال ہی میں، پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پی اے ایف نے پہلے ہی پائلٹوں کا ایک گروپ FC۔31کی تربیت کے لیے چین روانہ کر دیا ہے، جس سے پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کے حصول کی جانب پاکستان کے اقدام کو مزید تقویت ملی ہے۔FC۔31، J۔20’’ مائٹی ڈریگن‘‘ کے بعد چین کا تیار کردہ دوسرا اسٹیلتھ لڑاکا، برآمد کے لیے نہیں ہے اور اسے خصوصی طور پر چینی فضائیہ استعمال کرتی ہے۔FC۔31 کو اپنے بیڑے میں شامل کرنے سے PAFکی چینی لڑاکا طیاروں کی انوینٹری کو مزید تقویت ملے گی، جس میں پہلے سے J۔10Cاور JF۔17شامل ہیں، جو اسلام آباد اور بیجنگ نے مشترکہ طور پر تیار کیے ہیں۔FC۔31پر پاکستانی پائلٹوں کی تربیت کی رپورٹیں پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی صلاحیتوں کے حصول کی طرف پاکستان کے واضح راستے کی نشاندہی کرتی ہیں، یہ ایک ایسی پیشرفت ہے جس نے پڑوسی ملک بھارت میں تشویش پیدا کر دی ہے، جو اب بھی 4.5نسل کے لڑاکا طیاروں جیسے Sukhoi Su-30MKIاور Rafaleپر انحصار کرتا ہے۔
بھارت کو اب نہ صرف چین سے مقابلہ کرنے کے امکانات کا سامنا ہے، جو پہلے ہی J۔20فائفتھ جنریشن لڑاکا جہاز چلا رہا ہے، بلکہ پاکستان سے بھی، جو FC۔31کو میدان میں اتارے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے FC۔31کے حصول کا، جیسا کہ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے، اس کا مقصد امریکی ساختہ F۔16sاور فرانسیسی ساختہ میراج 5 جیٹ طیاروں کے پرانے بیڑے کو تبدیل کرنا ہے۔ اگر پاکستان کی جانب سےFC۔31 کے حصول کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو یہ علاقائی فضائی طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے، جو بھارت کے لیے ایک اہم چیلنج پیش کر سکتا ہے۔FC۔31پاکستان کی حکمت عملی میں لچک کو بڑھا دے گا اور اسے دشمن کی فضائی حدود میں گہرائی تک داخل کرنے کے قابل بنائے گا۔
چین ایکسپورٹ کے لیے FC۔31کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے اور اس نے ممکنہ بین الاقوامی صارفین کو راغب کرنے کے لیے ایک خصوصی دفتر قاءم کیا ہے۔ تاہم، بیجنگ نے F۔22ریپٹر کے حوالے سے امریکی پالیسی کی طرح J۔20مائٹی ڈریگن کی برآمد پر پابندی لگا دی ہے، اس خدشے کے پیش نظر کہ جدید ٹیکنالوجیز دشمن کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔FC۔31 ایک سنگل سیٹ والا، جڑواں انجن، درمیانے درجے کا پانچویں نسل کا اسٹیلتھ فائٹر ہے جس میں مضبوط اسٹیلتھ صلاحیتیں اور مسابقتی لاگت کا ڈھانچہ ہے۔ میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ FC۔31کو چین کے طیارہ بردار بحری جہازوں پر تعینات کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، جو لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ F۔35Bاور جدید ترین F۔35C کی طرح ہے۔ اگرچہ تفصیلی تکنیکی وضاحتیں نامعلوم ہیں، یہ معلوم ہے کہ FC۔31کا زیادہ سے زیادہ ٹیک آف ویٹ MTOW25000کلوگرام سے بڑھ کر 28000کلوگرام ہو گیا ہے، اور یہ WS۔19انجنوں سے لیس ہے جو 12ٹن تھرسٹ پیدا کرتے ہیں۔ لڑاکا جیٹ میں دو اندرونی خلیجیں ہیں، ہر ایک درمیانے فاصلے تک فضا میں مار کرنے والے دو میزائلوں کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے بموں اور میزائلوں کے لیے ہارڈ پوائنٹس لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جولائی میں، تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آئیں جس میں پاکستانی فضائیہ کا JF۔17تھنڈر بلاک 3لڑاکا طیارہ سیریل نمبر 323کے ساتھ دکھایا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ 23واں JF۔17بلاک 3 طیارہ ہے۔
پاکستانی دفاعی پورٹل کے مطابق، اس سے پتہ چلتا ہے کہ JF۔17بلاک 3لڑاکا طیاروں کی پیداوار 20یونٹس سے تجاوز کر چکی ہے اور 30یونٹ کے نشان کے قریب پہنچ رہی ہے، جیسا کہ پاکستان نے اپنی فضائیہ کو حکم دیا تھا۔JF۔17بلاک 3 JF۔17لڑاکا جیٹ کا تازہ ترین ورژن ہے، جس نے 2019میں اپنی پہلی پرواز کی اور 2022میں سیریل پروڈکشن میں داخل ہوا۔ اس تازہ ترین ویرینٹ میں سب سے نمایاں اضافہ KLJ-7A ایکٹو الیکٹرانک سکینڈ اری (AESA) ریڈار، ایک ہیلمٹ مانٹڈ ڈسپلے اور سائٹ (HMD/S)، اور ایک مربوط الیکٹرانک کائونٹر میعرز(ECM) سسٹم کا انضمام ہے۔ اسلحے کے لحاظ سے JF۔17بلاک 3 PL-15Eلانگ رینج ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل کو لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی رینج 145کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے۔ رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ JF۔17کا تازہ ترین ورژن ’’ تیمور‘‘ ایئر لانچڈ کروز میزائل (ALCM)لانچ کر سکتا ہے، جو 280کلومیٹر تک کی سٹرائیک رینج کے ساتھ جنگی جہازوں سمیت جامد
اور متحرک دونوں اہداف کے خلاف موثر ہے۔JF۔17بلاک 3مبینہ طور پر چین کے JF-10Cلڑاکا طیارے سے مماثلت رکھتا ہے، جو پاکستانی فضائیہ بھی استعمال کرتی ہے۔ دونوں طیارے HMD/S سسٹم کا استعمال کرتے ہیں، جس سے JF۔17بلاک 3کے پائلٹوں کو اپنے کیریئر کے دوران J-10Cطیاروں کو منتقل کرنے اور چلانے کی اجازت ملتی ہے۔ مزید برآں، JF۔17بلاک 3اور J-10Cدونوں ایک ہی ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل، PL۔15اور PL۔10استعمال کرتے ہیں۔JF۔17بلاک 3 لڑاکا طیاروں کو پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC)نے چین کے Chengdu Aircraft Industry Group (CAIG)کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ پاکستان نے J۔10کا جدید ترین ورژن، Cورژن خریدا ہے، کیونکہ یہ AESAریڈار اور بیونڈ ویعول رینج (BVR)فضا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں، خاص طور پر PL۔15جیسی جدید خصوصیات سے لیس ہے۔PL۔15میزائل کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ امریکی AIM-120 AMRAAMہوا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا بنیادی حریف ہے۔
پاکستان کو طیارے کی فروخت میں پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے J-10Cکو روسی Saturn AL-31Fانجن کے بجائے چین کے مقامی WS-10Cانجن سے چلنے کی بھی اطلاع ہے۔
( ڈاکٹر ملک اللہ یار خان جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور جاپان کی بین الاقوامی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ، ان سے enayatkhail@gmail.comپر رابطہ کیا جا سکتا ہے)۔







