بعد از مرگ نشان امتیاز

امتیاز عاصی
ملکی سیاست کے اتار چڑھائو دیکھتا ہوں تو بے ساختہ نواب زادہ نصراللہ خان یاد آتے ہیں۔ اپوزیشن کے اتحاد بنتے ہیں جلسہ ہوتا ہے آئین کی بحالی کا نعرہ لگتا ہے مگر عملا کچھ نہیں ہوتا۔ دراصل موجودہ دور کی اپوزیشن میں وہ دم خم نہیں جو نواب زادہ صاحب کے دور کی اپوزیشن میں ہوا کرتا تھا۔ نواب زادہ نصر اللہ کا دامن کرپشن سے پاک تھا ایک راست بازی تھی جسے عمر بھر داغ نہیں لگنے دیا ورنہ تو سیاست دان مال و دولت کی ہوس میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ پاکستانی سیاست کا معتبر نام اور سیاسی اتحادوں کے روح رواں تھے انہیں ہم سے جدہ ہوئے دو عشروں سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے سیاسی عمل میں انہیں کسی نہ کسی حوالے سے ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ اگلی دنیا کو سدھار گئے ان کی خوشگوار یادیں عوام کے دلوںمیں نقش ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی تھی سیاسی رہنمائوں کو یکجا کرنے کا انہیں ملکہ تھا بے نظیر بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، نواز شریف غرضیکہ تمام سیاست دانوں میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا جاتا تھا۔ دور آمریت کے خلاف ان کی جدوجہد اپنی مثال تھی وہ آمروں کے سامنے جھکنے کی بجائے جیل جانے کو ترجیح دیتی تھے ۔ سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں نواب صاحب کو سیاسی رہنمائوں کو قائل کرنے کا فن آتا تھا۔ آج کے سیاست دانوں اور ان میں واضح فرق یہ ہے وہ اپنی زرعی اراضی فروخت کرکے سیاست کرتے تھے جب کہ اب سیاست دان قوم کے پیسوں سے سیاست چمکاتے ہیں۔ سیاسی رہنما اسلام آباد آتے ہیں ان کا قیام فائیو سٹار ہوٹلوں سے کم کسی ہوٹل میں نہیں ہوتا نواب صاحب اپنے حقے کے ساتھ کسی پارٹی ورکر کے ہاں قیام کرنا پسند کرتے تھے۔ مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان نے زندگی کی پہلی سیاسی جدوجہد کا آغاز ایوب خان کے خلاف ساٹھ کی دہائی میں پاکستان جمہوری پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ سیاسی جماعتوں کا جو الائنس ایوب خان کے خلاف بنا وہ اس کے سربراہ تھے۔ اسی دور میں ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنا لیکن ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کا آغاز انہوں نے پاکستان قومی اتحاد
سے کیا جس سے سربراہ وہ خود تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف ایم آر ڈی ( بحالی جمہوریت کی تحریک) چلانے کا اعزاز انہی کو حاصل ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف 1993میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے پلیٹ فارم سے تحریک چلائی۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے سربراہ نواب زادہ صاحب تھے۔ آمروں کے خلاف سینہ سپر ہو کر جدوجہد ان کا مقصد حیات تھا۔ وہ فوج کے سیاسی کردار کے مخالف تھے ۔ نواب زادہ صاحب کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو رشوت، عہدے اور منصب کے لالچ سے مبرا تھے غرضیکہ آپ ایک حقیقی معنوں میں ڈیموکریٹک سیاست دان تھے۔ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے گائوں خان گڑھ سے تھا ۔ ملکی تاریخ کا کوئی سیاسی اتحاد ایسا نہیں تھا جس کی سربراہی نواب زادہ صاحب نے نہ کی ہو۔ درحقیقت بڑے بڑے آمر مرحوم نواب زادہ سے خائف رہتے تھے ان کی سیاست کا مطمع نظر ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت کی بحالی اور عوام کو ان کے حقوق دلوانا تھا۔ وہ چاہتے بڑے سے بڑا منصب کا حصول ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا وہ مال و دولت اور عہدوں کے لالچ سے مبرا تھے۔ اپنے آپ کو دنیاوی جاہ و جلال اور آسائشوں سے دور رکھا۔ سیاسی کیریئر کا آغاز انہوں نے مجلس احرار سے کیا ۔ 1950میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ چھوڑنے کے بعد حسین شہید سہروردی سے مل کر عوامی مسلم لیگ قائم کی اور آپ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔محترمہ فاطمہ جناح سے الیکشن لڑنے کی درخواست آپ نے کی ۔پہلے محترمہ نے انکار کیا بعد ازاں وہ الیکشن لڑنے پر آمادہ ہو گئیں۔ نواب زادہ صاحب نے سیاسی زندگی میں کم و بیش اٹھارہ اتحاد بنائے۔ ضیاء الحق کے دور میں اخبارات پر سنسر شپ تھی اور نواب زادہ صاحب کا نام لکھنے پر پابندی تھی ۔
راولپنڈی اسلام آباد کے اخبار نوسیوں کو ان کی آمد کی خبر ہوتی وہ ان کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔ نواب زادہ صاحب کا قیام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور میں اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل حافظ اسحاق کے ہا ں ہوا کرتا تھا۔ ویسے تو جی ایٹ میں انہوں نے کرایہ پر گھر لے رکھا تھا۔ عوام انہی سیاسی رہنمائوں کو تادیر یاد رکھتے ہیں جن کی سیاست کا مرکز و محور ملک و قوم کی خدمت ہوتا ہے نہ کہ اندرون اور بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کو۔ آج کے دور میں نواب زادہ نصراللہ خان پایہ کے سیاست دان ناپید ہیں جو اپنے اثاثوں سے سیاست کرتے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے بڑے بڑے اثاثے بنانے والے سیاست دانوں کو بار بار اقتدار پر مسلط کیا جاتا ہے عوام کی نظروں میں ان کی قدر و منزلت نہیں ہوتی۔ نواب زادہ صاحب کو اقتدار کا لالچ ہوتا وہ خود کوئی وزارت لے سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی پہلی کابینہ میں ان کی جماعت کے سیکرٹری جنرل کو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی آپ خود عہدوں اور مناصب سے دور رہے۔ عام طور پر ملک و قوم کی خدمت کرنے والوں کو ان کی حیات میں کسی ایوارڈ سے نواز ا جاتا ہے ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کو ان کی وفات کے اکیس سال بعد حکمرانوں کو بعد از مرگ نشان امتیاز دینے کی توفیق ہوئی ہے۔ چلیں ہم صدر مملکت آصف علی زرداری کے حسن زن کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے نواب زادہ صاحب کو یاد رکھا اور ان کی سیاسی خدمات کئے پیش نظر بعد از مرگ نشان امتیاز دینے کا اعلان کیا ہے۔ اے کاش نواب زادہ صاحب کے پایہ کے چند اور سیاست دان ملک میں ہوتے تو ہمارا ملک صحیح معنوں میں جمہوری ہوتا۔ اب تو جمہوریت نام کی رہ گئی ہے ۔ جمہوریت میں آزادی اظہار کی اجازت ہوتی ہے جو ماسوائے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے تمام سیاسی جماعتوں کو حاصل ہے۔