ریاستی جبر نے پی ٹی آئی کو بڑی جماعت بنا دیا

امتیاز عاصی
کبھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں بڑی جماعتیں ہونے کی دعویٰ دار تھیں اور دونوں کا شمار بڑی سیاسی جماعتوں میں ہوتا تھا۔ گو پیپلز پارٹی کو اب بھی سندھ میں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے لیکن مسلم لیگ نون جو پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھتی تھی اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔ دونوں جماعتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی عوام کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جس کے بانی کو جیل میں رکھنے کے باوجود پارٹی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غیر جانبدارانہ تجزیئے کی روشنی میں دیکھا جائے تو ریاستی جبر کے باوجود عوام کی بہت بڑی تعداد عمران خان کی اپیل پر سڑکوں پر نکل آتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے اس میں عمران خان کا کوئی کمال نہیں غریب عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں سے مایوس ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے اپنے تین سالہ اقتدار کے دوران عوام کو کچھ دیا تو نہیں نہ ہی اس نے کوئی دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں البتہ اس نے اقتدار کے دوران لوٹ مار نہیں کی اور حتی المقدور لوگوں کے لئے آسانیاں مہیا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ عمران خان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے اس نے ملک و قوم کو لوٹنے والے چہروں سے عوام کو روشناس کرایا ہے۔ پاکستان کے عوام انہی وجوہات کی بنا عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اسے جیل میں ایک سال سے زیادہ
عرصہ ہو گیا ہے اس کے خلاف حکومت کرپشن کا کوئی مقدمہ قائم کر سکی جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ گو اس کے خلاف القادر یونیورسٹی اور توشہ خانہ کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں اس کے باوجود اس کی راست بازی کے عوام گرویدہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمہ سے اب تک حکومت کی طرف سے عمران خان کے خلاف جو اقدامات کئے گئے ہیں نواز شریف جیسا کوئی ہوتا کب کا ڈیل کرکے ملک سے باہر جا چکا ہوتا وہ مضبوط اعصاب کا مالک ثابت ہوا ہے۔ ریاستی جبر کا یہ عالم لے قیدیوں کو صبح گنتی کھلنے سے شام تک کھلا رکھا جاتا ہے اسے صرف ایک گھنٹہ چہل قدمی کے لئے دیا جاتا ہے جس کے بعد اسے چکی میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اسے ریاستی جبر نہ کہیں تو اور کیا کہیں وہ ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے قانون کے مطابق اسے بی کلاس کی سہولت حاصل ہے وہ پورا دن چکی میں بند رہتا ہے۔ راولپنڈی میرا شہر ہے لیاقت باغ میں پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت نہیں ملی تو عمران خان نے کارکنوں کو احتجاج کی کال دے دی۔ بھلا سوچنے کی بات ہے وہ لیاقت باغ میں
تقاریر کر لیتے تو کیا مذائقہ تھا۔ لیاقت باغ آنے والے تمام راستوں کو کنٹنیرز سے بند رکھا ہوا تھا۔ کوئی موٹر سائیکل سوار سٹرک پر نہیں آسکتا تھا۔ لاہور میں تو جلسہ تھا لیکن وہی ناٹک جو لاہور میں رچایا گیا بالکل اسی طرح راولپنڈی میں سڑکوں کو بند رکھا گیا۔ کمیٹی چوک سے لیاقت باغ میدان جنگ بنا ہوا تھا شیلنگ کا یہ عالم تھا آسمان نظر نہیں آرہا تھا تاہم اس کے باوجود عمران خان کے کارکنوں نے لیاقت باغ میں احتجاج کرکے دکھایا۔ جنرل ایوب خان اگرچہ آمر تھا وہ غیرت مند ترین خاندان کا سپوت تھا طلبہ کے جلسوں میں اس کے خلاف نعرئے لگے تو اس نے اقتدار کو لات مار دی ۔آج کے حکمران جانے کیسے ہیں اندرون اور بیرون ملک ان کے خلاف نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے ان کے کانوں پر جوں نہیں
رنگیتی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ امریکہ میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ایک غریب ملک کا وزیراعظم آٹھ ہزار ڈالر یومیہ کے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ پاکستانی کمیونٹی حکومت سے اس حد تک بے زار ہے وزیراعظم کو پاکستانی کمیونٹی سے خطاب منسوخ کرنا پڑا۔ عجیب تماشا ہے یہ کیسی جمہوریت ہے ملک کی سب سے بڑی جماعت کو احتجاج کی اجازت نہیں نہ ہی صحافیوں کو احتجاج کی کوریج کرنی دی جاتی ہے لٹا ان پر تشدد ہو کیا جاتاہے۔ ایک عزیز دوست صحافی نے خبر میں لکھا حالات نے پی ٹی آئی کو واقعی مکمل سیاسی جماعت بنا دیا ہے اور ایسی سٹریٹ پاور والی پارٹی جیسے کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی تھی۔ جماعت اسلامی سے کئے گئے وعدے پورے نہیں گئے اتوار کو پاکستان کے مختلف شہروں میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے دھرنے دیئے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ پھیلتا چلاجائے گا۔ آئینی ترامیم کے معاملے میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور اب ماہ رواں میں آئینی ترامیم کا مسودہ ایوان میں لانے کی بازگشت ہے۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم پر اپنا موقف واضح کر دیا ہے وہ کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ پارٹی کارکنوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونا چاہتا تھا اسے برہان انٹر چینج سے آگے نہیں آنے دیا گیا۔ کل کلاں پنجاب سے کوئی جلسہ کرنے جائے گا تو شائد وہ جلسہ کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرے گا جیسا کہ اس کے ساتھ ہوا ہے۔ سیاست دانوں کا آپس میں نفرتیں بڑھانے سے کیا حاصل ہوگا۔ اللہ کے لئے اس ملک کو بچائیں ملک کو ذاتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف غیر اخلاقی زبان کے استعمال سے عوام کو کیا پیغام جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا بیان ہے آئی ایم ایف سے معاہدے میں اہم کردار سپہ سالار کا ہے۔ سوال ہے حکومت کیا کر رہی ہے اگر فوج نے سب کچھ کرنا ہے تو سیاسی جماعت کی حکومت کی چنداں ضرورت نہیں۔ افواج تو سرحدوں محافظ ہیں انہیں داخلی امن و امان قائم کرنے میں اپنا رول ادا کرنا پڑ رہا ہے جو سیاسی حکومتوں کی ناکامی ہے۔ سیاست دان اتنے قابل ہوتے آئی ایم ایف سے خود ڈیل کرتے لیکن وزیراعظم کے بیان سے ہمیں مایوسی ہوئی عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ کرنے میں اہم کردار چیف آف آرمی اسٹاف کا ہے۔ بلا شبہ پاکستان کے عوام اپنی افواج سے دل و جاں سے محبت کرتے ہیں لیکن وزیراعظم کے حالیہ بیان نے قوم کو مایوس کیا ہے۔





