Column

چیپلن کا فلسفہ

علیشبا بگٹی

کہا جاتا ہے کہ ہنسانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ کسی کو رلایا تو بہت آسانی سے جا سکتا ہے، لیکن دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا ایک دقت طلب کام ہے۔ خاموش فلموں کے دور میں جب ابھی فلموں میں صوتی اثرات کی ٹیکنالوجی کا دور دور تک کچھ پتا نہ تھا۔ تب آواز کے بغیر صرف اپنی جسمانی حرکات و سکنات اور چہرے کے تاثرات کے ذریعے کامیڈی کرنا اور وہ بھی اس پائے کی کہ ایک زمانہ اس کا گرویدہ ہو جائے نہایت مشکل کام تھا۔ اس میدان میں اپنے قسم کا ایک ہی اداکار گزرا ہے۔ جس کا نام چارلی چپلن ہے۔ چیپلن کو بلیک اینڈ وائٹ خاموش اور مزاحیہ فلموں کے دور کا سب سے بڑا ہیرو مانا جاتا ہے۔ فلموں میں بڑ ے بڑے بوٹ، ڈھیلی پینٹ، تنگ کوٹ، ہٹلر جیسی موچھیں، موٹی موٹی آنکھیں، گھنگھریالے بال، باولر ہیٹ اور ہاتھ میں چھڑی۔ چارلی چیپلن کی شخصیت کی پہچان بن چکی۔ چارلی چیپلن نے تقریباً 100فلموں میں کام کیا۔ 72فلمیں لکھیں، 7ڈائریکٹ کیں، جبکہ تقریباً 21فلمیں پروڈیوس کیں۔
چارلی چیپلن 16اپریل 1889ء کو پیدا ہوا۔ چارلی چیپلن کا پورا نام چارلس سپینسر ہے۔ چارلی ایک سال کا تھا۔ تو اس کے والدین میں علیحدگی ہوگئی۔ غربت میں زندگی شروع ہوئی، تو پانچ برس کی عمر میں پہلی بار چارلی نے سٹیج کا سامنا کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کی ماں آخری بار تھیٹر پر پرفارم کر رہی تھی، لیکن پرفارمینس کے دوران ہی اس کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ تب چارلی اپنی ماں کے ساتھ تھا اور سٹیج کی بیک سائڈ پر موجود تھا۔ اس وقت سٹیج مینجر نے چارلی سے اس کی ماں کی جگہ پرفارم کرنے کو کہا۔ اس وقت چارلی نے آرکسٹرا کی دھن پر ایک مشہور نغمہ ’’ جیک جونز‘‘ گانا شروع کیا، تو لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور یہاں سے اس کے فنی دور کا آغاز ہوا۔ اس اچھی پرفارمینس پر بھی اس کے دن نہ بدلے اور پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے چارلی نے ہر طرح کے کام کیے، لیکن دل میں صرف اداکار
بننے کی لگن تھی۔ وہ ہر روز کام سے فارغ ہوجانے کے بعد اپنا بہترین لباس پہنتا، جوتے پالش کرتا اور شام کو بلیک مور تھیٹریکل ایجنسی کے چکر کاٹتا۔ چارلی نے اس ایجنسی کے اتنے چکر لگائے کہ اس کا واحد خوب صورت لباس اس قابل بھی نہ رہا کہ وہ یہاں مزید چکر لگا سکے۔ اس کی لگن سچی تھی۔ ایک دن اس کمپنی کے کرتا دھرتا ہملٹن نے چارلی کی مستقل مزاجی کو دیکھتے ہوئے اسے ایک ڈرامے ’’ شرلاک ہومز‘‘ میں پیج بوائے یعنی کم عمر ملازم لڑکے کا رول دیا۔ یہ چالیس ہفتوں کا ٹور تھا اور اس کے لیے دو
پونڈ اور دس شیلنگ فی ہفتہ معاوضہ ملنے لگا۔ اس
وقت چارلی کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ اس سے پہلے وہ ایک ڈانس گروپ میں بھی کچھ عرصے کے لیے کام کر چکا تھا۔ اسی دوران ماں کی وفات چارلی کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا، پوری زندگی اسے افسوس رہا کہ کام یابی اور عروج کے دور میں اس کی ماں اس کے ساتھ نہیں۔ 1908ء میں انیس سال کی عمر میں اس نے fred karno pantomime trope کمپنی جوائن کی، جو اسے امریکا لے گئی، دسمبر 1913ء میں چیپلن کیلیفورنیا پہنچے، جہاں میک سینیٹ نامی کامیڈی ڈائریکٹر نے انہیں ’’ کی سٹون سٹوڈیوز‘‘ کے لیے سائن کر لیا۔ اس معاہدے کی رو سے چارلی کو ہر ہفتے ایک سو پچاس ڈالر ملنے لگے۔ بقول میک وہ نیویارک کے ایک شو میں چارلی کی اداکاری دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ 1914ء تک کی سٹون سٹوڈیو میں کام کرتے ہوئے چارلی قریباً 35کامیڈی فلموں میں لیٹل ٹریمپ کا کردار ادا کر چکے تھے۔ 1914ء کے اواخر میں انہوں نے ایک ذاتی مسئلہ کی بنا پر ’’ کی سٹون‘‘ کو خیرباد کہا اور ایسینے سٹوڈیو جوائن کر لیا، جہاں سے انہوں نے 15کامیاب کامیڈی فلمیں پیش کیں۔ ایسینے کمپنی اسے ہر ہفتے دو سو پچاس ڈالر ادا کرتی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے اپنے بھائی سڈنی کو اپنا بزنس مینجر بنایا۔ اس کمپنی کے ساتھ چارلی نے چودہ فلمیں کیں۔ چارلی کی پہلی فلم ’’ میک آلیونگ‘‘ تھی۔ 1915ء میں چارلی نے اپنا دی ٹریمپ والا کردار تخلیق کیا، جس نے اس کے لیے کام یابی کے دروازے کھول دئیے اور اس کے مداحوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی گئی۔ چارلی کی مقبولیت میں اس کے کلاسک کردار دی ٹریمپ کا سب سے زیادہ دخل ہے۔ دی ٹریمپ میں اس کا ظاہری حلیہ ایک لینڈ مارک کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیگی پینٹس، bambo cane، بائولر ہیٹ، اوور سائز جوتوں اور ہٹلر اسٹائل کی مونچھوں نے اس کی اصل شخصیت کو گم کر دیا اور آج تک وہ دنیا بھر میں اسی حلئے سے پہچانا جاتا ہے۔ تین سال کے بعد چارلی نے اس کمپنی کو خیر باد کہہ دیا اور
Mutualکمپنی سے وابستہ ہوگیا، جو اسے ایک سال کے 670000ڈالر ادا کرتی تھی۔ اس کمپنی کے ساتھ اس نے 1916ء میں ون اے ایم، دی رنک، The vagabondاور ایزی سٹریٹ میں کام کیا۔ 1918ء تک وہ دنیا کی جانی مانی شخصیت بن چکا تھا۔ چارلی کی وفات 25دسمبر1977ء کو سوئٹزرلینڈ میں ہوئی۔ اس کی موت کے تین مہینوں کے بعد چارلی کی ڈیڈ باڈی چوری ہو گئی تھی، چوروں نے ڈیڈ باڈی کے عوض ایک خطیر رقم کا مطالبہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ چوروں نے ان کی لاش کے بدلے 6کروڑ روپے طلب کیے، پیسے نہ ملنے پر اغوا کاروں نے لاش کو جلا کر ایک صندوق میں بند کر کے پھینک دیا۔ تفتیشی پولیس نے لاش برآمد کر کے اغوا کاروں کو حراست میں لے لیا۔
چارلی چپلن 88سال زندہ رہے۔ اس نے ہمارے لیے 4بیانات چھوڑے۔
1۔ اس دنیا میں کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، یہاں تک کہ ہمارے مسائل بھی نہیں۔
2۔ مجھے بارش میں چلنا پسند ہے کیونکہ کوئی میرے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔
3۔ زندگی کا سب سے کھویا ہوا دن وہ ہے جس دن ہم ہنستے نہیں ہیں۔
4۔ دنیا کے چھ بہترین ڈاکٹر یہ ہیں۔ سورج آرام ورزش خوراک عزت نفس اور دوست۔
اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر ان سے جڑے رہیں اور صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ ہم سب سیاح ہیں، خدا ہمارا ٹریول ایجنٹ ہے۔ جس نے پہلے ہی ہمارے راستوں، بکنگ اور منزلوں کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ اس پر بھروسہ کرتے زندگی سکون سے گزاریں، کیونکہ سب فنا کے راستے کے مسافر ہیں۔ زندگی بس ایک سفر ہے لہذا، آج زندہ رہیں، کل ہو کہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ چارلی چیپلن نے زندگی گزارنے کے پانچ سنہری اصول بتا دیئے۔
1۔ خود اعتمادی کامیابی کی بنیاد ہے۔
2۔ اپنے آپ کو جانیں ۔ آپکو کس چیز کا شوق ہے ۔ آپ کو کونسی چیز خوش کرتی ہے۔ کونسی چیز آپکو اُداس کرتی ہے۔ اپنے آپ سے پیار کریں۔
3۔ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں۔
4۔ اچھی یعنی سکون و اطمینان والی زندگی گزاریں۔ دولت کے علاوہ بھی دُنیا میں خوشیاں ہیں۔
5۔ مشکلوں سے مت گھبرائیں۔ بلکہ مشکلوں کا سامنا کریں۔

جواب دیں

Back to top button