مزاحمت کے علمبردار شیخ حسن نصر اللہ الوداع

ایم فاروق قمر
گزشتہ 3دہائیوں سے ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کی قیادت کرنے والے شیخ حسن نصر اللہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک طاقتور شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے، جنہوں نے حزب اللہ کو ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم بنایا۔
64سالہ حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے اہم ترین کمانڈر کے طور پر اس مزاحمتی تنظیم کو دفاعی طور پر مضبوط کیا۔ شیخ حسن نصراللہ شیعہ لبنانی مسلح تنظیم حزب اللہ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے خود کو حزب اللہ کے اہم ترین رہنما کے طور انہوں نی نہ صرف اس مزاحمتی تنظیم کو لبنان کی سیاست میں ایک اہم کردار دلوایا ہے بلکہ خود کو بھی لبنان کی ایک بااثر شخصیت کے طور پر منوا لیا ہے۔ حسن نصراللہ ایک پرجوش اور جوشیلے خطیب ہیں، جنہوں نے اسرائیل سے مقابلے کے لیے ایران میں شیعہ مذہبی رہنماں اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا۔ حزب اللہ کے سربراہ کو لبنان کی طاقتور ترین شخصیت سمجھتا ہے، جن کے پاس ایک لاکھ سے زائد جنگجو ہیں اور ان کے گروپ کے افراد ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں۔
حسن نصر اللہ اپنی اہلیہ اور 3بچوں کے ہمراہ بیروت کے ایک متوسط علاقی میں رہتے تھے، ان کا بڑا بیٹا ہادی 1997ء میں 18برس کی عمر میں ہی اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا تھا۔
حسن نصر اللہ 1960ء میں مشرقی بیروت کے علاقے بورجی حمود میں ایک غریب شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے، 1975ء میں جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کا خاندان جنوبی لبنان میں ان کے آبائی گائوں بسوریہ چلا گیا۔15برس کی عمر میں انہوں نے لبنان میں شیعوں کی نمائندہ تحریک ’’ امل‘‘ میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے عراق کے شہر نجف میں قرآن اور سیاست کی تعلیم حاصل کی اور یہیں ان کی ملاقات سید عباس موسوی سے ہوئی جو لبنانی امل ملیشیا کے رہنما تھے۔1978ء میں حسن نصراللہ کو عراق سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ لبنان واپس آ گئے جہاں انہوں نے بعلبک میں عباس موسوی کے مدرسے میں مذہبی تعلیم و تدریس کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ بعد ازاں انہیں بقا کے علاقے میں امل ملیشیا کا سیاسی نمائندہ مقرر کیا گیا، 1982ئ میں لبنان اسرائیلی در اندازی کے بعد حسن نصراللہ نے امل تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی اور خود کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے وقف کر دیا۔ حسن نصر
اللہ نے 1982ء میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کرنے والی تنظیم حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی جبکہ 1992ء میں حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کی موت کے بعد حسن نصر اللہ کو تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف بہترین مزاحمتی حکمت عملی اپنائی اور سال 2000ء میں 22سال بعد اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے انخلا پر مجبور کر دیا۔
2005ء میں لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللہ نے ملک کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک ثالث کا کردار ادا کیا، ان کا ماننا ہے کہ حزب اللہ صرف ایک مزاحمتی تنظیم نہیں بلکہ دین اسلام کا پیغام پھیلا رہی ہے۔
غزہ جنگ میں حسن نصراللہ کا کردار موجودہ دور میں ان کا تعلق صرف لبنان تک محدود نہیں بلکہ وہ ایران کے مزاحمتی محور میں سب سے زیادہ بااثر رہنما ہیں۔
7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ن اختم ہونے والے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حزب اللہ نے سرحد پر واقع اسرائیلی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور اسے غزہ کے لیے ’’ بیک اپ فرنٹ ‘‘ قرار دیا۔ اس دوران حسن نصر اللہ نے دعویٰ کیا حزب اللہ کے سرحد پار حملوں نے اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور غزہ میں حماس پر توجہ مرکوز کرنے سے روکا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک اسرائیل غزہ میں حملے نہیں روکے گی، حزب اللہ بھی اسرائیل کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ چند ہفتوں قبل لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے بعد بھی نصراللہ نے حماس کی حمایت کے موقف کو تبدیل نہیں کیا۔ پیجر دھماکوں کے بعد جاری ہوئی تقریر میں حزب اللہ کے سربراہ نے لبنان میں اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملوں کو ایک ’’ موقع‘‘ سے تعبیر کیا۔ اسرائیل نے گزشتہ 27ستمبر کو بیروت پر
کیے گئے حملوں میں حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز کو شہید کر دیا۔ جو اہل اسلام کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ خبروں کے مطابق اسرائیل نے جاسوسوں کی مدد سے حسن نصراللہ اور ان کے ساتھیوں کا پتا چلایا، حزب اللہ کا مرکزی ہیڈکوارٹر عمارت میں زیر زمین تھا، حزب اللہ کا ہیڈکوارٹر کثیرالمنزلہ رہائشی عمارتوں کے برابر میں تھا۔
27 ستمبر بروز جمعہ کو اسرائیلی فضائیہ نے MK84ٹائپ 10بم گرائے جن میں ہر ایک بم کا وزن 2000پائونڈ تھا اور یہ بم 50سے 70میٹر تک زیر زمین محفوظ شدہ مقامات کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مزید برآں یہ کہ ان بموں میں ارتعاشات پیدا کرنے والی ایسی خصوصیات ہیں جو زیر زمین ہدف کے ارد گرد کسی بھی زندہ مخلوق کو ختم کر دیتے ہیں اور ان بموں سے حسن نصراللہ شہید ہو گئے جو کہ مسلم امہ کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو اپنا فعال کردار ادا کرے اور مسلم امہ کوئی عملی ترتیب دے اور اسرائیل کو لگام ڈالے۔ اپنی مصلحت کوشی چھوڑ کر عملی اقدامات کرے اور اپنے اختلافات مٹا کر متحد ہو جائے، اسی میں مسلم امہ کی بہتری ہے۔





