فیصلہ ناک آئوٹ پر ہو گا

تحریر : سیدہ عنبرین
وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ جس اکثریت میں ہے اسے کسی قسم کا خطرہ نہیں، یہی کیفیت پنجاب میں ہے جہاں وہ ایک محفوظ عددی اکثریت رکھتے ہیں لیکن وفاق میں اس عدد تک پہنچنے کی جستجو ہے، جس کے حصول کے بعد آئینی ترامیم کی جا سکیں، یہ اکثریت حاصل ہونے کے بعد وہ تمام فیصلے کئے جا سکتے ہیں جو حکومت پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے کسی بھی حکومت کی خواہش اول سمجھے جاتے ہیں، یہ اکثریت ایک قانونی جواز بھی فراہم کرتی ہے لیکن یہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے جو راستے اختیار کئے جا رہے ہیں غیر جانبدار حلقے ان پر معترض ہیں جبکہ اپوزیشن کے اس استدلال میں بہت گہرائی ہے کہ سابق چیف جسٹس بندیال کے اختیارات چھین کر ان کی طاقت کو کم کرنے کیلئے ایک آئینی بل لایا گیا، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ضرورت محسوس کی گئی کہ سابق چیف جسٹس سے چھینا گیا اختیار اگر موجودہ چیف جسٹس کو واپس دے دیا جائے تو وہ حکومت کیلئے گراں قدر کار خیر انجام دے سکتے ہیں، کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے مطلوبہ اکثریت موجود نہ ہونے پر ’’ بائی پاس‘‘ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی کوششیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں، ڈیفکیشن کلاز کے تحت ایک ممبر قومی اسمبلی اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی پارٹی لائن کے مطابق کسی بھی ترمیم کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے۔ پارٹی لائن کے خلاف عمل کرنے والا ممبر قومی اسمبلی اگر اپنے ووٹ کا استعمال کرے گا تو وہ اپنی نشست کھو دے گا، یہ عمل غیر آئینی اور غیر قانونی تصور ہو گا، اس کا ووٹ جس مقصد کیلئے جس کو دیا گیا ہے وہ شمار نہیں ہو گا، آئین کی یہ کلاز مثبت طرز عمل کیلئے راہ ہموار کرتی ہے، جبکہ منفی طرز عمل اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتی ہے۔ مستقبل قریب میں پیش کی جانے والی آئینی ترامیم 50کے لگ بھگ ہیں، جن میں اب یہ تبدیلی کی جا رہی ہے کہ ڈیفکیشن کلاز میں تبدیلی کر دی جائے اور ممبر قومی اسمبلی کو حق دے دیا جائے کہ اگر وہ اپنی سیاسی جماعت کی طرف سے اس کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ اپنی نشست سے محروم تو ہو جائے گا لیکن جس ترمیم کے حق میں یا جس کے خلاف اس نے ووٹ کا استعمال کیا ہے اس مقصد کیلئے اس کا ووٹ شمار ہو گا، جب یہ ووٹ شمار ہو گا تو وہ مقصد پورا ہو جائے گا، جس مقصد کیلئے پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے کسی اور کو ووٹ سے نوازا گیا۔
مجوزہ ترامیم اگر پیش کر دی جاتی ہیں اور وہ مطلوبہ اکثریت ہونے کے باعث منظور ہو جاتی ہیں تو اپوزیشن اور غیر جانبدار حلقوں کے مطابق یہ ایسے ہی ہو گا کہ چور کو چوری کرنے پر سزا تو دے دی گئی لیکن چوری شدہ مال کی واپسی کا راستہ بند کر دیا گیا اور اصول طے کر دیا گیا کہ چوری کا مال اب اس گھر کی ملکیت ہو گا جہاں اور جس چار دیواری تک اسے پہنچا دیا گیا، اب اس چار دیواری میں رہنے والے اس مال مسروقہ سے فوائد حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے ۔ ان ترامیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کے ذمہ داران یہ کہتے نظر ہیں کہ ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے حالانکہ نیتیں تو پیشانی کی تحریر بن کر واضح ہو چکی ہیں، اس معاملے میں کسی کو کوئی الہام نہیں ان ’’ نیک نیت‘‘ ترامیم کی راہ میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے ہیں جبکہ سرکار ان رکاوٹوں کو ہر قیمت پر عبور کرنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ نئی غلطی کرنے کی بجائے پرانی غلطیاں دہرانے کا عزم نظر آتا ہے، بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے حکومت کو کوئی انجانا نہیں بلکہ جانا اور خوب سمجھا ہوا خوف دامن گیر ہے جس کے تحت آئینی عدالت کا تصور پیش کر کے اب اپنے چیف جسٹس کی تلاش اور اس کی بقا کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ پرانے نظام، پرانے قانون اور پرانے قانون کے تحت نئے آنے والے چیف جسٹس اگر آئینی پٹیشن پر غور کیلئے انہیں حق سماعت دے دیتے ہیں تو اس حوالے سے الیکشن فروری 2024ء کے تمام متنازعہ حلقے کھول دیئے جائیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
نکھر کر سامنے آ جائے گا، جس کی زد میں آکر سرکاری اکثریت اقلیت میں بدل سکتی ہے، فارم 45پر فیصلہ ہو گا فارم 47کا بھرم قائم نہ رہ سکے گا۔
محاذ آرائی اپنے آخری مرحلے پر پہنچ چکی ہے، اپوزیشن کو اس کی پسند کی جگہوں اور تاریخوں پر جلسوں کی اجازت نہ دے کر حالات پر کنٹرول مشکل ہو گیا، لاہور میں تمام تراکیب استعمال کرنے کے بعد بھی ہجوم اکٹھا ہو گیا، لہٰذا راولپنڈی کے جلسے کیلئے بروقت تاریخ اور مقام کا این ا سی جاری نہ کیا گیا اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ساتھ رینجرز بھی طلب کر لی گئی۔ پی ٹی آئی نے راولپنڈی کا جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان صرف اس وجہ سے نہیں کیا کہ انہیں این او سی نہ ملا بلکہ اطلاع ملی کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ پس فیصلہ ہوا اس جلسے کی بجائے پورے راولپنڈی میں احتجاج کیا جائے، اگر پھر بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ حکومتیں ہر زمانے میں اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے کیلئے یہی اقدامات کرتی ہیں جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کارکن اور لیڈر اسی طرح پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کرتے ہوئے سر پھڑواتے ہیں، کپڑے تار تار ہوتے ہیں، آنسو گیس کے شیل برسات کرتے ہیں، گرفتاریاں کی جاتی ہیں اور نصف شب کے قریب تمام گرفتار شدگان کو رہا کر دیا جاتا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے خلاف اگلے دن کوئی بڑا احتجاج نہ شروع ہو جائے، راولپنڈی کے احتجاج میں یہ سب کچھ ہوا، آئندہ جلسوں کی اجازت کے معاملے میں بھی یہی طرز عمل اختیار کرنے کی توقع ہے، حالات بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں، سلجھنے کے کم ہیں، ایک طرف سوچ ہے طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور کچل کر رکھ دیں گے، دوسری طرف سوچ ہے کہ اپنے آئینی اور قانونی حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ آخری معرکہ شروع ہو چکا ہے، معاملات اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، فیصلہ پوائنٹس پر نہیں ناک آئوٹ پر ہو گا۔





