Column

افسانوی کردار

احسان فیصل کنجاہی

انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث ناول، افسانے، کہانیاں اور کتابیں پڑھنے کا رواج کم ضرور ہوا ہے مگر ختم نہیں اور شاید کبھی ختم ہوگا بھی نہیں کیونکہ انٹرنیٹ محض تفریح کا ذریعہ ہوسکتا ہے اور انٹرنیٹ کے ماخذ بھی یہی ناول، افسانے، کہانیاں اور کتابیں ہیں۔ افسانہ ادب کی نثری صنف ہے۔ لغت کے اعتبار سے افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں یہ لوک کہانی کی ہی ایک قسم ہے۔
افسانہ کو کہانی بھی کہا گیا ہے۔ لیکن موجودہ ادبی تناظر میں افسانے سے مقصود مختصر افسانہ ہے جو کم سے کم آدھے گھنٹے میں یا آدھی نشست میں پڑھا جاتا ہے۔ افسانہ دراصل ایک ایسا قصہ ہے جس میں کسی ایک واقعہ یا زندگی کے کسی اہم پہلو کو اختصاراً اور دلچسپی سے تحریر کیا جاتا ہے۔ اس کی ترتیب میں اجزائے ترکیبی کا بہت زیادہ عمل دخل رہتا ہے اور ان میں سے وحدت تاثر کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ پریم چندر کے علاوہ سجاد حیدر اور سلطان حیدر جوش نے بھی اردو میں مختصر افسانہ کے نمونے پیش کئے۔ شروع میں پریم چند نے بنگالی ادب سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا تھا ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’’ سوز وطن‘‘1908میں شائع ہوا۔ ان افسانوں میں سامراج دشمن اور وطن دوستانہ جذبات کی ترجمانی کی گئی تھی اس لیے انگریز حاکموں نے اس مجموعے کو ضبط کر لیا۔ پریم چند کی ابتدائی کہانیوں میں داستانوں کے انداز کی جھلک تھی لیکن بعد میں ان کا فن برابر ارتقا رہا اور انہوں نے اردو افسانہ نگاری کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
افسانہ نگاری کا بنیادی مقصد معاشرتی کہانیوں کو اس پیرائے میں لکھا جاتا ہے کہ قاری جب پڑھنا شروع کرتے تو اس کا نتیجہ پڑھے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ کہانی کسی ایک فرد یا شخصیت کی نہیں ہوتی بلکہ معاشرتی کہانی ہونے کے ناطے بہت سارے لوگوں کی زندگیوں سے مطابقت رکھ سکتی ہے، جیسے ٹیلی ویژن پر کوئی ڈرامہ سیریل شروع ہوتی ہے تو ہزاروں دیکھنے والے ناظرین کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ انہی کی داستان لکھی گئی ہے مگر حقیقت میں وہ ایک فرضی داستان ہوتی ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو محض تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ منفی کردار اور منفی پہلوئوں سے بچنے کی ترغیب ہوتی ہے۔
کنجاہ چونکہ علم و ادب کی بستی ہے یہاں غنیمت کنجاہی سے لے کر شریف کنجاہی تک بڑی بڑی نامور ہستیاں گزر ی ہیں، جنہوں نے اپنے علم و فن کی طاقت کا لوہا دنیا بھی میں منوایا ہے، نعت، نظم، نثر، غزل اور ناول نگاری پر بہت سارے لوگوںنے کام کیا مگر افسانہ نگاری کے میدان قیام پاکستان سے قبل کشمیری لال ذاکر کے بعد پروفیسر زہیر کنجاہی اور امین کنجاہی کے نام قابل ذکر ہیں۔ راقم ( احسان فیصل کنجاہی ) نے علم و ادب کی مختلف اصناف پر جہاں کام کیا، نظم، غزل، نثر، انتخاب سمیت 20کتابیں منظر عام پر آگئیں جن میں ایک افسانے کی بھی کتاب ( خواب ایک حقیقت) ہے ، اسی سلسلہ کی کڑی دوسری افسانے کی کتاب ’’ مٹی کے رنگ ‘‘ زیر طبع ہے ۔ جس کے چند افسانے مقامی اخبار میں بھی شائع ہوئے اور بعض لوگوں نے اسے اپنی کہانی یا پھر مخصوص شخصیات کی کہانی سمجھ لیا حالانکہ راقم نے کسی مخصوص شخصیت پر کوئی کہانی نہیں لکھی بلکہ محض معاشرتی کہانی کے طور پر افسانے
تحریر کئے جن کے کردار بھی افسانوی ہیں لہٰذا ان کو کسی خاص شخصیت کے ساتھ منسوب کرنا بھی زیادتی ہے۔ اسے محض افسانہ ہی سمجھا جانا چاہیے۔
افسانہ چونکہ ایک لوک کہانی ہوتی ہے، لوک کہانی اسے کہتے ہیں جو سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچی ہو، چونکہ یہ بالواسطہ تحقیق سے نہیں لکھی جاتی، سنی سنائی باتیں ہوتیں ہیں اس لیے بھی ان کا حقیقت سے سو فیصد تعلق درست ثابت نہیں کیا جاسکتا، البتہ کم از کم کہانی کا نصف حصہ کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے، مگر کہانی یا افسانہ کسی سطحی واقعہ پر نہیں لکھا جاتا بلکہ معاشرتی اقدار، اخلاقیات پر گہرا اثر چھوڑنے والی کہانی ہی افسانے کا موضوع بن سکتی ہے ایسی کہانیاں کسی خاص شخصیت یا پھر علاقے تک محدود نہیں رہتی بلکہ دنیا کے طول و عرض تک سفر کرتی ہیں اور مقبول ہوتی ہیں ۔ ڈرامہ نگاروں کی اکثریت ایسی اچھوتی کہانیوں کی تلاش میں رسالے ، اخبارات اور افسانوں، ناولوں کی کتابیں کھنگالتے رہتے ہیں اور پھر انہی افسانوی کرداروں کو فلمانے کے بعد جب وہ ایک ڈرامہ سیریل پیش کرتے ہیں تو وہ قومی سطح پر پسند کیا جاتا ہے اور معاشرتی کہانی سمجھتے ہوئے بے شمار لوگ اسے ہر گھر کی داستان سمجھتے ہیں، بلکہ کچھ لوگ تو یوں محسوس کرتے ہیں کہ جیسے من و عن انہی کی کہانی لکھ دی گئی ہو۔ بہت اچھے اور شہرت یافتہ ڈراموں کو دنیا کے دیگر ممالک میں مقامی زبانوں میں ترجمے کر کے دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگ محظوظ ہوں۔ جیسے ترکی کے ڈرامے پاکستان میں بے حد مقبول ہورہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ علمی، ادبی میدان میں کام کرنے والوں کی سرپرستی کریں، حوصلہ افزائی کریں، نظم، نثری، شاعری، افسانہ، ناول جیسے دیگر موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کرے تاکہ معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔

جواب دیں

Back to top button