عدم استحکام ،خاتمہ کب ہوگا؟

امتیاز عاصی
جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے عدم استحکام میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی ملکی مسائل پر توجہ کم اور بانی پی ٹی آئی پر توجہ زیادہ مرکوز ہے کسی طریقہ اسے پابند سلاسل رکھنا مقصود ہے۔ آئینی ترامیم کے معاملے میں سر دھڑ کی بازی لگانے کے باوجود وہ مقاصد پورے نہیں ہو سکے جن کے لئے آئینی ترامیم کی جارہی تھیں۔ اب آئندہ ماہ ایک بار پھر کوشش کی جائے گی تاکہ آئینی عدالت کا قیام اور من پسند جج تعینات کیا جا سکے۔ اے کاش ملک اور عوام کے مسائل کے لئے اسی طرح توجہ دی جاتی تو کچھ بہتری کی امید پیدا ہو سکتی تھی۔ جماعت اسلامی سے وعدے ایفاء نہ ہوئے اہم شاہرائوںپر دھرنوں کی کال دے دی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت دینے کے باوجود جگہ کی تبدیلی اور راستوں میں رکاوٹیں عوام کو جلسہ سے روکنے میں کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ لاہور کے جلسہ میں عوام کو روکنے کے لئے جو ناٹک رچایا گیا حکومت لوگوں کو جلسہ گاہ میں جانے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ؟۔ ٹھنڈے دل سے سوچنے کی بات ہے پی ٹی آئی کے بانی کی عوامی مقبولیت تسلیم کرنے میں کیا عار ہے؟۔ دو صوبوں میں آگ کی ہولی کھیلی جا رہی ہے کیا یہ صرف افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے وہ سرحدوں کے ساتھ داخلی امن کے لئے بھی قربانیاں دے؟ مجھے ایک با اعتماد ذرائع نے بتایا سپہ سالار جنرل عاصم منیر اور سبکدوش ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنرل عاصم منیر ایک بہادر اور دلیر آرمی چیف ہیں جو بھارت کے معاملے میں بہت کلیر ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں بلوچستان میں بیک وقت دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ان کی تفصیل میرے لئے تحریر کرنا ممکن نہیں البتہ سیاسی رہنمائوں کو اپنے ذاتی مفادات سے نکلنا ہوگا ملک کے ساتھ بہت کچھ ہوچکا ہے اب ملک اور عوام پر رحم کیجئے ۔ آخر استحکام کی صورت کس نے پیدا کرنی ہے ۔ مسلم لیگ نون کے اپنے رہنمائوں اور جماعت اسلامی کے امیر کا مطالبہ ہے تمام سیاسی قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ سے پی ٹی آئی کی بہت سی خواتین جیلوں میں ہیں۔ سانحہ نو مئی میں جو لوگ براہ راست ملوث ہیں ان کے مقدمات کی سماعت میں کیوں تاخیر ہے۔ اگر ان کے خلاف کوئی شہادت نہیں تو انہیں رہا کر دیا جائے۔ فوجداری قوانین میں شہادت کے بغیر ملزمان کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ کسی نے بہت اچھی بات کی ہے ایک شخص کو عہدہ پر برقرار رکھنے کے لئی آئین میں ترامیم کون سی آئینی اصلاحات ہیں؟ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے اتحادی رہ چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے دور میں وہ حکومت کے ساتھ تھے۔ وہ آئینی اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں کوئی وجہ تو ہے۔ مولانا کوئی ایسے سیاست دان نہیں ہیں جو حکومت کی خواہش پر انگوٹھا لگا دیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہے جے یو آئی اور پی ٹی آئی باہم ملکر آئینی مسودہ تیار کریں گے۔ آئینی ترامیم کے لئے جس روز ایوان کا اجلاس بلایا گیا حکومت نے مولانا کو منانے کی سر دھڑ کی بازی لگادی۔ کبھی صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور کبھی حکومتی وزراء کی ٹیم ان سے ملاقات کرنے کے باوجود انہیں قائل نہیں کر سکی۔ آئینی مسودہ دکھائے بغیر حمایت کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تو رات گئے انہیں مسودہ مہیا کیا گیا۔ سوال ہے اٹھارویں ترمیم میں چیف جسٹس کے عہدے کے لئے اصول طے ہوگیا تو اب سے بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ حکومت عدلیہ پر اپنا پورا کنٹرول پورا رکھنا چاہا رہی ہے وکلاء برداری آئینی ترامیم کے سامنے دیوار بن گئے ہیں۔ اس ملک کا کیا بنے گا جہاں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات الیکشن کمیشن تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حقیقت میں الیکشن کمیشن آزاد ادارہ نہیں بلکہ حکومت کی خواہشات کے تابع ہے۔ الیکشن کمیشن آزاد ہوتا وہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے میں ذرا دیر نہیں کرتا۔ ایک سابق بیوروکریٹ اور سپریم کورٹ کے جج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سپریم کورٹ تک پہنچنے کے لئے کم از کم تیس سالہ لگ جاتے ہیں اس عرصہ میں جج صاحبان نے قانون اور آئین کی روشنی میں سینکڑوں فیصلے کئے ہوتے ہیں جبکہ بیوروکریٹس کو وزیراعظم کو سمری بھیجنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن کا تقرر کسی راست باز سپریم کورٹ کے جج سے ہونا چاہیے نہ کہ اپنے قریبی کسی بیوروکریٹ سے ۔ گو چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عمران خان کے دور میں ہوا عمران خان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے وہ تو نام کا وزیراعظم تھا جب طاقت ور حلقوں کی خواہشات پوری کرنے لیت و لعل کی اس کی چھٹی کرا دی گئی۔ جس طر ح ہماری افواج ملکی دفاع کو تمام چیزوں پر فوقیت دیتی ہی سیاست دانوں کو ملکی ترقی اور عوام کے مسائل پر پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال اور نیچا دکھانے کی کوشش سے ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ جو حکومت اقتدار میں آتی ہے اس کی توجہ کا مرکز آئی ایم ایف ہوتا ہے۔ آئی ایف ایم سے قرض ملنے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں حالانکہ یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا تھا وہ مقروض نہیں ہے ۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے قائدین ملک اور عوام سے اتنے مخلص ہیں اپنے سرمائے سے کچھ نہ کچھ ملک کو عطیہ کریں تو ملک کے حالات بدل سکتے ہیں۔ ملک کو مقروض کرنے والی ہماری سیاسی حکومتیں ہیں جن کی ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ جن سیاست دانوں نے آئی پی پی پیز میں حصہ داری ڈالی ہوئی ہے وہ بے نقاب ہو چکے ہیں۔ عمران خان کا یہی قصور ہے اس نے ملک و قوم کو لوٹنے والے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ تاسف ہے سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں مملکت میں استحکام لانے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ سیاسی افرتفری کے خاتمے سے استحکام آسکتا ہے جب حکومت سیاسی قیدیوں خواہ ان کا تعلق کسی جماعت سے ہو ان کی رہائی کے لئے اقدامات کرے اور عوام کو مہنگائی کے جن سے نجات دلائے تو یہ بات یقینی ہے ہمارا ملک عدم استحکام کا شکار نہیں رہے گا۔





