Column

فاقہ مستی

صفدر علی حیدری
مرکزی بینک نے 31دسمبر 2023تک ملک پر قرضے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر 65189ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ ہے جس میں صرف ایک سال کے دوران 14000ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔31دسمبر 2022کو ملک پر مجموعی قرضہ 51058ارب روپے تک تھا جو ایک سال میں 65189ارب روپے ہو گیا اور ایک سال میں قرض میں ہونے والا یہ اضافہ 27.7فیصد تھا۔ پاکستان پر لدے اس مجموعی قرضے میں اندرون ملک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا جانے والا قرضہ 42588ارب روپے ہے جب کہ بیرونی ملک عالمی اداروں اور ممالک سے لیے جانے والا قرض 22601ارب روپے ہے ۔
پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعی قرض کا اگر ڈالر میں حساب لگایا جائے تو یہ 131ارب ڈالر بنتا ہے، موٹا موٹا حساب یہ ہے کہ پاکستان کا ہر شہری 2لاکھ 80ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 10ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ قرض لے رکھا ہے۔ آئی ایم ایف کے سب سے بڑے مقروض ملکوں کی بات کی جائے تو ان میں ارجنٹائن، مصر، یوکرین اور ایکواڈور کے بعد پاکستان پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ ایشیائی ملکوں میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے ۔ جون 2008میں سرکاری قرضہ 6.1 کھرب تھا جو 2024میں 67.5کھرب روپے پر پہنچ گیا ہے جس میں 61.4کھرب کا اضافہ ہوا ہے ۔ آج کی نوجوان نسل کو یقین نہیں آئے گا، لیکن ان کی پیدائش سے چند سال پہلے تک ڈالر 25روپے سے کم قیمت پر دستیاب تھا۔ تاہم، گزشتہ 30سالوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر تقریباً 100گنا یا 948فیصد کم ہوچکی ہے ۔
روپے کی اس بربادی کو جب گراف پر پیش کیا گیا اور بھارتی روپے کی قدر سے جوڑا گیا، جیسا کہ ہم نے ذیل میں کیا ہے، تو پتا چلا کہ پاکستان کے ساتھ غلط کیا ہوا۔ اور اب نئی نسل پچھلی تین دہائیوں میں کی گئی ان غلطیوں کو دہرانے سے کیسے بچ سکتی ہے ۔یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں پروفیسر ورنر اینٹ ویلر کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 1950کی دہائی میں پاکستانی روپے (PKR)میں امریکی ڈالر کی شرح مبادلہ 3.3تھی، جبکہ بھارتی روپیہ (INR) 4.76 پر تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی کرنسی ہندوستانی روپے کے مقابلے میں تقریباً 70فیصد زیادہ مضبوط تھی ۔ لیکن بھارتی روپے پر پاکستانی کرنسی کا غلبہ صرف 1956تک رہا، پھر پاکستانی اور ہندوستانی کرنسیاں برابر ہوگئیں، اور امریکی ڈالر پاکستان اور ہندوستان دونوں کو ایک ہی شرح یعنی 4.7پر دستیاب تھا۔ ہماری کرنسی کے مستحکم ہونے کا امکان اس وقت تک نہیں ہے، جب تک کہ ملک کی سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ نہ جائیں ۔ کسی کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ہمارا ہر بال بچہ ۔
افسوس ہوتا ہے کہ قرض لے لیا جاتا ہے کسی کو اعتماد میں بھی نہیں لیا جاتا ۔ جس مقصد کے لیے لیا جاتا ہے وہاں خرچ بھی نہیں ہوتا ۔ ملک کی معیشت اس قابل بھی نہیں رہی کہ وہ قرض واپس کر سکے ۔ قرض کی واپسی کے لیے اور قرض لیا جاتا ہے اور یوں یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح طول پکڑتا چلا جاتا ہے ۔ یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے اور یقین نہیں آتا کہ کبھی ہم پر ایک روپیہ قرض بھی نہیں تھا۔ ایوب خان کے دور میں ہم ایشیا میں نمایاں تھے۔ ہمارے پانچ سالہ منصوبے کی نقل کر کے کوریا ترقی یافتہ ممالک کی صف میں داخل ہو گیا اور ہم ایشین ٹائیگر بنتے بنتے ، تباہی کے دلدل میں جا گرے ۔ تجربہ کاروں نے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ملک کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا ہے کہ قوم کی چیخیں نکل گئیں ۔ آج وہ فخریہ کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ یعنی ’’ بندہ مر گیا ، شکر ہے آنکھ بچ گئی ‘‘، ایک نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق 1340ارب روپے غائب ہو گئے ہیں، جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ ذرا اندازہ تو کیجئے کہ یہ ایک غریب اور مقروض ملک کا حال ہے، جس کی معاشی حالت یہ ہے کہ اسے قرض کی رقم ادا کرنے کے لیے اور قرض لینا پڑنا ہے اور وہ بھی سخت تین شرائط پر۔
پچھلے سال دبئی میں مقروض ملک کا وفد، آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے سیون سٹار ہوٹل میں مقیم تھا جبکہ قرض دینے والے تھری سٹار ہوٹل میں۔ ماضی میں مہاجن سے قرض دادا لیتا تھا مگر اس کی ادائیگی پوتا بھی نہیں کر پاتا تھا۔ کئی نسلیں وڈیروں کی غلامی کرتے مر جاتی تھیں۔ کیا آپ کسی ایسے ملک کو جانتے ہیں جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکل پائے ہوں ۔ یہ مکڑی کے جالے بعد میں لوہے کی زنجیریں ثابت ہوتے ہیں۔ جن کی قید سے نکلنا اکثر صورتوں میں ناممکن ہو کر رہ جاتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ آخر ہم قرض کیوں لیتے ہیں ؟ کیا کبھی ان حکمرانوں نے یہ بتانے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ آخر وہ قرض لے کس لیے رہے ، اسے خرچ کس مد میں کریں گے اور ادائیگی کیسے ہو گی ؟ روز دیکھتے ہیں کہ بینک ملازمین ہر روز اپنا سارا حساب کتاب مرکزی آفس کو بھجوا کر بینک سے باہر نکلتے ہیں ۔ وہ تب تک قید میں ہوتے ہیں ، جب تک یہ کام سر انجام نہ دے لیں ۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہر حکومت کو اپنے دور میں لیا گیا قرضہ چکتا کر کے گھر جانے کی اجازت ملے ۔ وہ یہ باتیں کر گھر جائیں کہ اپنے دور میں انھوں نے کتنا قرض لیا ، کہاں لگایا اور کتنا ادائیگی کی۔ اگر سو روپے قرض اٹھایا تھا تو سو روپے واپس کر کے اپنا حساب چکتا کریں ۔ ہر سال ہندسوں کا گورکھ دھندہ لفظوں کے گورکھ دھندے میں لپٹ کر بجٹ کے نام پر قوم کے نمائندوں نے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ ملکی ’’ دفاع ‘‘ کی نذر ہو جاتا ہے۔ کچھ ترقیاتی و غیر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو جاتا ہے ۔ ایک بڑا حصہ کرپشن کی صورت حرام خوروں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے اور غریب طبقہ منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ اس کی صحت اور تعلیم کے لیے بجٹ میں چند سو روپے رکھے جاتے ہیں، وہ بھی تو اس تک نہیں پہنچتے۔
جہان پاکستان کی ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ رقم قسطوں میں ملے گی ۔ اس سال دو اقساط مل جائے گی ۔ وزیر اعظم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان فرمایا ہے کہ یہ اگر یونہی ’’ محنت ‘‘ جاری رہی تو یہ آخری پروگرام ہو گا۔ قوم کو تو چھوڑیں خود کہنے والے کو اس پر یقین نہیں ہو گا۔ نا تجربہ کاروں کی حکومت تھی تو یہی شخص کہتا تھا کہ ایک ارب ڈالر کی امداد کے لیے آئی ایم ایف کی منتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ قوم کی یاداشت اتنا بھی خراب نہیں کہ وہ یہ بات بھول جائے کہ پچھلا بجٹ بنایا ہی آئی ایم ایف نے ہے ۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، کیا اس کے بھیجے میں دماغ بھی نہیں ہوتا۔ انسان وہ بات کرتا کیوں ہے جس پر عمل نہ کر سکے۔ اور مخالف کی اس بات کو ہدف تنقید بنائے ہی کیوں بنائے جس کے بنا وہ خود رہ نہ پائے۔ آخر ہمارے سیاست دان اپنا اگلا کب تک نگلتے رہیں گے۔ کب تک وہ قرض کی مے حلق میں اتارتے رہیں گے۔ کب تک قرض کا مال مل بانٹ کر کھاتے رہیں گے۔
مرزا غالب نے شاید انہی دم پرستوں کے لیے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

جواب دیں

Back to top button