Column

عالمی برادری اسرائیل کا احتساب کرے

ایم فاروق قمر
اسرائیل نے فلسطینیوں کیخلاف ایک سال سے جاری بدترین جارحیت کا دائرہ پڑوسی ملک لبنان تک بڑھا دیا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی توسیع پسندی سے جنم لینے والی کشیدگی تباہ کن اور عالمی جنگ میں تقسیم ہوسکتی ہے۔ کیونکہ امریکہ، برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک مسلسل اسرائیل کو مہلک ترین اسلحہ اور دوسرا فوجی ساز و سامان فراہم کر رہے ہیں۔ جو اس کے فاشسٹ عزائم کو تقویت دے رہا ہے۔
لبنان کیلئے 23اور 24ستمبر پیر اور منگل کا دن بدترین اور تباہ کن تھا۔ ایسا دن اہل لبنان نے دہائیوں میں نہیں دیکھا ہوگا، جب اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی اور مشرقی لبنان کے شہری علاقوں میں فلسطینیوں کی حمایتی تنظیم حزب اللہ کی سینئر قیادت کو نشانہ بنانے کے بہانے وحشیانہ بمباری کی۔ اس بمباری سے 35بچوں اور 58خواتین سمیت 492افراد شہید اور 1700سے زائد زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی حملوں کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے اور اس کی بربریت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 79واں اجلاس جاری ہے اور یو این او کے جنرل سیکرٹری نے گزشتہ روز لبنان میں جاری اسرائیلی حملوں کی جانب عالمی قیادتوں کی توجہ مبذول کرائی۔ اسرائیل نے لبنان کی سلامتی و خودمختاری کو روندتے ہوئے ایک دن میں 80تباہ کن حملے کرکے یہ پیغام دیا کہ عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لہٰذا وہ انسانی حقوق سے بالا ہے۔ ایسا کون سا مہلک ترین ہتھیار اور تباہ کن اسلحہ ہے جو فلسطینیوں کیخلاف استعمال نہیں ہوا۔ عالمی برادری اس پر بدستور خاموش ہے۔ آدھے گھنٹے میں 80حملوں کا ہونا بربریت اور وحشیانہ پن کی حد نہیں تو کیا ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والے آج کہاں ہیں، کیوں خاموش ہیں؟ کیوں، آخر کیوں؟
کیا مسلمان کا لہو اس قدر سستا ہے؟
’’ انسانی حقوق کی اصطلاح بڑی واضح اور جامع ہے مگر اس کا اطلاق ہر ایک ملک پر نہیں ہوتا، صرف چند ایک ممالک پر ہوتا ہے‘‘۔
دنیا بھر میں ایک طرف اسرائیل کیخلاف ریلیاں، احتجاج ہورہے تو دوسری طرف اسرائیلی مظالم میں کمی نہیں آ رہی، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل سب پر حاوی ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ تنازع مہلک ثابت ہوا۔ لبنان پر حملے کیلئے پیجرز
استعمال کئے گئے اور یہ پیجرز تائیوان کی کمپنیز نے فراہم کئے۔ لبنانی وزیراعظم نے اسرائیلی حملوں کو تباہی کی جنگ قرار دیدیا۔ جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتے۔ ہم نے حزب اللہ کیخلاف حملوں کو وسیع کرنا ہے۔ آخر وہ کون سے اہداف ہیں جو اسرائیل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33دن کی جنگ ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کو لبنان کی وادی بقا سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانا پڑا تھا۔ اسرائیل جوکہ پڑوس کے تمام ملکوں پر عسکری بالادستی ، بڑی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے ان پر حاوی رکھنا چاہتا تھا۔ اس کو اس قدر شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے نفسیاتی اثرات اب بھی اسرائیلی فوج پر نظر آتے ہیں۔
اسرائیل کو 17سال پہلے لبنان کی وادی بقا سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اس انخلا کی سالگرہ کے موقع پر حزب اللہ ایک بڑی پریڈ کرتا ہے۔ اگرچہ یہ پریڈ غیر سیاسی ہوتی ہے مگر اس کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں۔ جو لبنان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر مرتب ہوئے ہیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ دونوں فریق حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہیں کہ آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ اسرائیل کئی مسلم ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرکے ایک غاصب طاقت بن گیا ہے۔ جو نہ صرف فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے بلکہ پڑوس کے تمام ملکوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عمل میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں قرارداد لائی جاتی ہے تو ویٹو کر دی جاتی ہے۔ اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ اسرائیل کی زیادتیاں ، ظلم، مہلک اور وحشیانہ ہوتے جا رہی ہیں۔ اور اس کی خلاف ورزیوں سے ناصرف فلسطین میں نسل کشی کی جا رہی ہے بلکہ استثنیٰ کا یہ نمونہ احتساب اور انصاف کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتا ہے اور دوسروں کو ایسے جرائم میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ بین الاقوامی قانون پر اعتماد طاقتور ممالک کو انسانی حقوق کو اپنے سٹرٹیجک مفادات پر ترجیح دینا ہوگی۔ اس کیلئے عالمی برادری کو ایک متحد اتحاد کی ضرورت ہے۔ قوموں کو اپنے اعمال کے لیے ایک دوسرے کو جواب دے ٹھہرانا چاہیے۔ امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں ایسے میں اگر مسلمان ممالک متحد ہو جائیں تو اسرائیل کو لگام ڈالی جا سکتی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اسلامی ممالک یک جان اور یک جہت نہیں ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی اپنا فعال کردار ادا کرے اور مسلم امہ کوئی عملی ترتیب دے اور اسے لگام ڈالے۔ اپنی مصلحت کوشی چھوڑ کر عملی اقدامات کرے اور اپنے اختلافات مٹا کر متحد ہو جائے۔ جس طرح 1973ء میں صرف تین عرب ممالک کے متحد ہونے سے اسرائیل گھٹنوں پر آ گیا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button