Column

مولانا کو القابات ملنا اور حکومت کی حمایت کرنے یانہ کرنے سے عوام کو کیا فائدہ ملا؟

عبد الرزاق برق

ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں پہلی بار دیوبند کی سیاست کے وارث اور پارلیمان میں مضبوط پوزیشن رکھنے والے مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم کی حمایت نہ کرکے بہترین سیاسی کردار اور شاندار عمل ادا کرنے پر پہلی دفعہ سلطان سیاست اور سیاست کے امام اعظم کے القابات سے نوازا گیا جس سے پورے پاکستان کے عوام کے دلوں میں انہوں نے بھی پہلی بار اپنا ایک مقام اور عزت پیدا کر دیا۔ تین دن تک پوری پاکستان کے عوام نے یہ منظر ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر دیکھا کہ واقعی مولانا پاکستان کی سیاست اور صحافت پر چھایا رہا۔ تین دن سے مولانا کے گھر کا دروازہ ہر ایک کے سامنے کھلا رہا ، تین دن سے ریاست کے صدر وزیراعظم، وزراء اور ان کے ماضی میں سخت مخالف تحریک انصاف والے ان کے گھرکا طواف کرتے رہے اور اس دوران کسی نے مولانا کی آئینی ترمیم میں حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے پیر پکڑے ، کسی نے خود مولانا کی حمایت کرتے ہوئے ان کی امامت میں نماز ادا کی ، مولانا اپنے گھر میں سب کو خوش آمدید کہتے رہے ، کسی کو نہ انکار کیا نہ کسی کو ہاں کیا لیکن اب مولانا نے سب سے دس دن کا وقت لیا ہے اور ان دس دنوں میں کون کون ان کے پاس جاتا ہے، کون کون ان کی امامت میں نماز ادا کرتا ہے اور کون کون ان سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا لیکن اس بارے میں ایک پہلا سوال بنتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان میں وہ کون سا مقناطیس تھا کہ ریاست کے سب لوگوں کو تین دن تک کھینچتا رہا، آخر کہاں ہیں وہ جمہوریت اور سیاست کے امام کہ تین دنوں میں مولانا کو اپنی حمایت کیلئے قائل نہیں کر سکے ۔ دوسری طرف مولانا جب سے عوام کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں تو عوام بھی ان کے بارے میں تین روز سے یہ کہتے رہے کہ مولانا سیاست کا نمک ہیں وہ اقتدار میں نہ ہوں تو حزب اقتدار ادھوری ہوتی ہے اور حزب اختلاف تک مکمل نہیں ہوتی جب تک مولانا اس کا حصہ نہ ہوں سب کی رونقیں ان ہی کے دم سے ہیں، ہر گونگے کی گویائی مولانا ہیں، یہ امریکہ کی طرح ایک چلتی پھرتی ویٹو پاور ہیں جو 73کے آئین کے تناظر میں جس پلڑے میں وزن ڈال دیں وہی بھاری ہوجاتا ہے۔ بقول عوام کے مولانا کا کوئی مقابل نہیں نہ مذہبی سیاست میں نہ عصری سیاست میں۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کی حمایت کے بدلے میں ملک کے ایک اہم ذرائع ابلاغ کے دعوے کے مطابق مولانا کو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کی آفر کی گئی۔ اس سلسلے میں مولانا کے بیٹے اسعد محمود کو بلوچستان سے ایم پی اے منتخب کروانا تھا ۔ پیپلزپارٹی نے ان کے بیٹے اسعد محمود کو سندھ سے سینیٹر بنانے کی پیشکش کی لیکن مولانا نے اپنی پارٹی کے مفادات کی جگہ اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچا۔ ایک ایسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کی جس کی وجہ سے اس ملک کی عدلیہ مفلوج ہوجاتی اور یہی سمجھا کہ عجلت میں ہونے والی قانون سازی ہمیشہ ملک کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے اور وہ اگر اس مسودے کا ساتھ دیتے تو ملک اور قوم کی امانت میں خیانت ہوتی اس لئے انہیں یہ مسودہ کسی صورت قابل قبول نہیں اور نہ ہی قابل عمل ہے۔ تبھی انہوں نے کہا کہ پہلے وہ مسودہ کا بھر پور جائزہ لیں گے تب ہی وہ حکومت کے اس فعل میں حصہ دار ہوں گے۔ مولانا نے اپنے سیاسی عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی سیاست اقتدار یا ڈالروں کی نہیں بلکہ نظریات کی تابع ہے ۔ وہ اگر آئینی بل کی حمایت کے عوض دولت چاہتے تو اربوں روپے ان کے قدموں میں پڑے ہوتے، اقتدار میں شراکت چاہتے تو مرکز اور صوبوں کی وزارتیں اور گورنری ان پر نچھاور کردی جاتی مگر وہ عدلیہ میں اصلاحات کے خواہش مند ہیں ، دینی مدارس و مساجد کا تحفظ اور سود کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان چونکہ دیوبند کی سیاست کے وارث ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، حق وراثت ادا کرتے ہیں جن کے آبائو اجداد نے انگریزوں کے سامنے سرنڈر نہیں کیا بلکہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے تو ان کے سیاسی وارثوں سے بھی یہی توقع رکھیں کہ وہ اسی شان سے سر اٹھاکر جیئں گے۔ اب بتائیں کتنی وزارتوں کی مار ہیں مولانا۔۔۔۔۔؟ اس تمام کھیل میں دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آئینی ترامیم کرنے کی کوشش میں ناکامی سے حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑی۔ مولانا کو سلطان سیاست اور امام اعظم سیاست کے جیسے القابات تو مل گئے مگر اس شروع کردہ مہم میں عوام کو کیا ملا؟ یا اس آئینی ترمیم سے عوام کو آئندہ کیا ملے گا؟ مفت میں مولانا ،حکومت اور اپوزیشن کے لوگ میڈیا پر چھائے رہے؟ عوام پر اس وقت جو مہنگائی مسلط کی گئی ہے کیا حکومت اور اپوزیشن ایسے بل پارلیمنٹ میں لائے گی جس سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، اتنی بھاری اور تیزی سے عوام کے مفاد کے لئے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی؟ ویسے بھی ان چکروں سے عوام کا کیا لینا دینا، عوام کو تو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی جبکہ حکمران 67۔68کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، یہ سب قوانین حکمران عوام کے بجائے اپنے مفاد کے لئے بناتے ہیں، عوام کی انہیں کوئی فکر نہیں، افسوس اس بات کا کہ کوئی بھی پاکستانی عوام کے بارے میں سوچ نہیں رہا اور نہ پاکستان کی سوچ رہا ، سب اپنے مفاد میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی ترامیم سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا؟ انہیں صرف اپنی کرسیوں کو محفوظ کرنا ہے اور عوام کے ٹیکس کے پیسے ان اجلاسوں اور عیاشیوں پر خرچ ہو رہے ہیں، کیا اس آئینی ترمیم سے عوام کو فوری طور پر انصاف ملے گا؟ اگر عدلیہ کی بہتری اور عوام کو فوری انصاف دینے کے لئے یہ سب کچھ ہورہا ہے تو اس وقت عدلیہ میں 65ہزار کیسز پڑے ہوئے ہیں، ان کیسزکے فیصلے جلدی کیوں نہیں کئے جاتے جس سے عوام کو فوری انصاف مل سکے۔ کیا حکومت کے موجودہ عمل سے عدلیہ اور سیاست اب بھی الجھی ہوئی نہیں رہے گی؟ کیونکہ جب ملک میں پہلے سے موجود آئین اور قانون پر عملدرآمد نہیں ہورہا تو پھر ایک نئی ترمیم ہو بھی جائے توکیا فرق پڑتا ہے ، ملک میں اس وقت کوئی آئین ہے بھی نہیں، ہمارے ملک کے سیاستدان کھبی عوام کے مفاد کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے ، چاہے مہنگائی ہو یا امن و امان لیکن ایک ناجائز کام کے لئے ایک مہینی سے زیادہ ہوا ہے کہ ان کے درمیان ملاقاتیں ہورہی ہیں تاکہ قاضی کو ایکٹینشن ملے مذید جب ان تمام کا اپنا مطلب ہوتا ہے تو اتوار اور چھٹی والے دن عدالتیں اور پارلیمنٹ کھل جاتے ہیں جب غریب کا مسئلہ ہو تو ایک مہینے تک سماعت ملتوی کر دی جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ایک ریاست دو دستور؟ جو حکومت خود جعلی اور غیر آئینی ہو اور جو پارلیمنٹ خود غیر نمائندہ ہو اسکی ترمیم کی کیا حثیت رہ جاتی ہے۔ ترامیم کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو گزشتہ 2برس کے دوران پارلیمنٹ میں ایک بھی ایسا بل پیش نہیں کیا گیا جس سے عوام کو کوئی ایک سہولت ملی ہو تمام ترامیم اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے پیش کی گئیں ۔ اگرچہ حکومت عدالتی اصلاحات چاہتی ہے ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی جس کے چیف جسٹس اور جج صدر لگائے گا۔ وفاقی عدالت کے ججوں کی تعداد بھی مقرر نہیں لیکن تمام صوبوں سے برابر نمائندگی ہوگی۔ وفاقی آئینی عدالت وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے متعلق معاملات سنے گی۔ یہ اس کا بنیادی دائرہ کار ہوگا لیکن وہ بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کے تحت آنے والے عوامی اہمیت کے مقدمے بھی سنے گی ۔ وفاقی آئینی عدالت آرٹیکلز198کے تحت آنے والے مقدمات ہائی کورٹ سے اپنے پاس یا کسی دوسری ہائی کورٹ کو منتقل کر سکے گی۔ آرٹیکلز190کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ادارے کو حکم دینے کا جو اختیار تھا وہ وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہوجائے گا ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کا طریقہ کار تبدیل ہوکر جج لگانے کے لئے کمیشن کو خاطرخواہ اختیارات دے دیئے گئے ہیں اس بارے میں لوگوں کو ماضی کی طرح یہ خدشہ تھا کہ مولانا حکمران اتحاد کی سائیڈ پر کروٹ لیں گے مگر انہوں نے نہایت شاندار کردار ادا کیا ۔ اس آئینی ترمیم کی اب تک حمایت نہیں کی اور مولانا فضل الرحمان باقیوں کے مقابلے میں پکے نکلے جس کی وجہ سے ڈیل میں دیر ہوئی اور حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع دیکھنے کو ملا کہ پہلی دفعہ بغیر مسودے کی ترمیم اسمبلی میں پیش کی گئی کیونکہ اگر حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کے حوالے سے معاملات پر کھل کر گفتگو کی جاتی تو
خفیہ بندوبست اور مشکوک کھیل کی پھبتاں بھی نہ کی جاتیں
اس سے قبل آئین پاکستان میں 25 ترامیم ہوچکی ہیں ،کسی ترمیم میں اس درجہ کی راز داری سے کام نہیں لیا گیا۔ 18ویں ترمیم کے لئے 9ماہ اور 550 گھنٹے کا وقت لگایاگیا ۔ پیپلز پارٹی آج حکمران اتحاد کا حصہ ہے، پیپلز پارٹی ہی کے دور میں 2010میں اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی لیکن موجودہ آئینی ترمیم لانے والی حکومت کا رویہ پیپلزپارٹی کی اس دور کی حکومت کے رویے میں قابل ذکر یہ ہی کہ آئینی ترمیم کے مقابلے میں جس قسم کا قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے اسے تشکیل دینے کی کوشش نہیں کی گئی اور اس کا ثبوت آئینی مسودے کے سلسلے میں حکومت کی رازداری ہے جس نے اس عمل کو مشکوک بنا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جمہوریت کا مفہوم ہمارے سیاسی لیڈر ابھی تک نہیں سمجھ سکے، جمہوریت کے اوصاف میں شامل ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار فرد واحد کے بجائے مجموعی دانش کو سونپ دیا جائے اور تکنیکی نوعیت کے معاملات میں متعلقہ شعبوں کے سٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ یعنی اگر ترمیم عدلیہ کے نظام میں مطلوب ہے تو اس بارے میں وکلاء کی انجمنوں کے ساتھ مشاورت کی ہوتی مگر ایسا بھی کچھ دکھائی نہیں دیا گیا۔ یہ آئینی ترمیم کے اس بھاری بھرکم ٹاسک کو اس طرح ہنڈل نہیں کیا گیا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا ۔ حکومت رائے عامہ کی تشکیل میں کامیاب نظر نہیں آتی اور سیاسی سطح پر لابنگ میں بھی متاثر کن کارکردگی نہیں دیکھا سکی ۔ اس سارے عمل نے مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومتی منشا اور ارادوں کو مبہم بنا دیا ، جمہوریت شفافیت کا تقاضا کرتی ہے اور کوئی فیصلہ جس کی اہمیت قومی ہو اسے مخفی انداز سے کرنے کی اجازت نہیں دیتی، جمہوری تقاضوں کی روشنی میں ضروری ہے کہ حکومت اپنے طرز عمل پر نظرثانی کریں۔ آئین ایک مقدس دستاویز ہوتی ہے اس میں ترمیم کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ صبح اسمبلی کا اجلاس بلائو پھر کہو نہیں اب دوپہر کو اجلاس ہوگا پھر کہو اب شام کو ہوگا پھر کہا اب شام کے بعد ہوگا پھر کہا اب رات گئے ہوگا اور پھر اسے غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا جائے۔ یہ آئین سازی نہ ہوئی بچوں کا کھیل ہوگیا۔ واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان کے پاس اس وقت دونوں ایوانوں میں 13سیٹیں ہیں اور اسی مولانا نے جنرل مشرف کے ایل ایف او کو قانون کے کپڑے پہنا دیئے تھے اور انہیں وردی میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی۔

جواب دیں

Back to top button