Column

منکسر المزاجی

علیشبا بگٹی
ایک محل میں ایک وزیر رہتا تھا۔ وہ بر رات سونے سے پہلے ایک کوٹھڑی میں جاتا تھا۔ لوگوں کو پتہ نہ تھا کہ اس کوٹھڑی کا راز کیا ہے۔ جب وہ وزیر مرنے لگا اور لوگوں نے راز پوچھا۔ تو وزیر نے کہا کہ ایک زمانے میں وہ غریب گداگر ہوتا تھا۔ اس نے کوٹھڑی میں وہ گدڑی سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ اور ہر رات سونے سے پہلے وہ اس گدڑی کو دیکھتا تھا۔ تاکہ وہ مغرور و متکبر نہ ہو جائے۔ اس وزیر کی منکسر المزاجی نے ساری قوم کا دل مول لیا تھا۔ اور وہ اس کا احترام کرتے تھے۔
پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کے روح رواں 88سالہ بزرگ عبدالستار ایدھی منکسر المزاجی اور فراخدلی کی مثال تھے۔ اپنے امدادی کاموں کی وجہ سے انہوں نے ہر پاکستانی کے دل میں جگہ بنالی تھی۔ شاید ہی کسی شخص نے عام عوام کی زندگی میں بہتری کے لئے اتنا اچھا کام کیا ہو، جتنا عبدالستار ایدھی نے کیا ہے۔
درویش منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ وہ سب انسانوں کا احترام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کے نام خاندان اور دولت کی بجائے ان کے کردار کی وجہ سے پرکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سب انسان برابر ہیں۔ وہی انسان بہتر ہیں جن کا کردار اعلیٰ ہے۔ درویش لوگ دراصل رنگ، نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے تعصبات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ درویش لوگوں کو ان کی خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں اور دل سے لگاتے ہیں۔ درویش کی کٹیا کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا ہے۔
سعدی شیرازی فرماتے ہیں۔ کہ ایک بارش کا قطرہ جب سمندر کے پاس آیا تو شرمندہ ہوا۔ سوچنے لگا میں اس سمندر کے آگے کتنا ناچیز ہوں۔ اس قطرے کی ندامت دیکھ کر ایک سیپ کو اس پر پیار آ گیا۔ اور بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ اس طرح وہ قطرہ اپنی منکسر المزاجی سے موتی بن گیا۔
درویش جانتے ہیں کہ انسان کی اپنی انا اس کی معرفت کے سفر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ دُنیا اور آخرت میں کامیابی اسی کی ہوتی ہے، جس کے مزاج میں انکساری ہوتی ہے۔ لوگوں کی طبیعتوں اور ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے ان کے لیے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر و کمتر اور چھوٹا خیال کرنا عاجزی وانکساری کہلاتا ہے۔ کیونکہ انسان کی اکڑ خدا کی پکڑ پر ختم ہو جاتی ہے۔ کبھی نہیں سنا کہ انسان کو عاجزی لے ڈوبی۔ انسان کو ہمیشہ اس کا تکبر لے ڈوبتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ کل تک ہوا میں اُڑنے والے، کبھی کبھار زمین پر چلنے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ شعر ہے کہ
عاجزی اوڑھ کر جو خود کو جھکایا میں نے
لوگ کم ظرف تھے اتنے کہ خدا ہونے لگے
جب آپ کسی کو اپنے سے نیچا تصور کرتے ہیں۔ تو پھر آپ اللہ کے فضل سے محروم ہو جاتے ہیں۔ منزلیں کتنی بھی اونچی کیوں نہ ہوں۔ لیکن راستے ہمیشہ پاں کے نیچے ہوتے ہیں۔ کسی کو بھی اپنے سے نیچی نظر سے نہ دیکھیں۔ اگر اللّٰہ نے آپ کو مقام دیا ہے۔ تو یہ آپ کی قابلیت کا کام نہیں ہے۔ یہ آپ پے اللہ کے فضل کا کمال ہے۔ آپ کو انکساری و عاجزی اختیار کرنا چاہئے۔ مغرور انسان اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ زندگی میں کامیابی کے لئے اپنے اندر منکسر المزاجی کی خوبی پیدا کریں، اگر ہم غرور اور تکبر کا شکار ہو جائیں گے تو پھر اللّٰہ کے ناپسند بن جائیں گے۔ عاجزی اور سادگی انسان کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔ پشتو مثل ہے کہ عاجزی لویھ بادشاھی دھ۔۔ عاجزی ہمیشہ انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے۔ تکبر جس شکل میں بھی ہو۔ بدبودار سماجی تعفن ہے اور منکسر المزاجی خوشبودار معاشرتی عطر ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ
زندہ رکھیں بزرگوں کی ہم نے روایتیں
دشمن سے بھی ملے تو ملے عاجزی سے ہم
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ عاجزی کرنے والوں کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے‘‘ ۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور خدائے رحمان کے مقبول بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہوئے الگ ہو جاتے ہیں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص اللہ کے لئے عاجزی کرتا ہے، اللہ اسے بلندی عطا فرما تا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ ’’ نیک آدمی جب علم سیکھتا ہے تو انکساری سے جھک جاتا ہے اور بد فطرت جب علم سیکھتا ہے تو تکبر سے اکڑ جاتا ہے‘‘۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کی سیرت اور اسوہ حسنہ کا یہ پیغام ہمارے معاشرے کے ہر فرد کے لئے ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں عاجزی و انکساری کا خوبصورت وصف پیدا کریں۔ کیونکہ عاجزی و انکساری انسان کی شخصیت کا بہت ہی خوبصورت وصف ہے۔ اور یہ وصف اس وقت پروان چڑھتا ہے۔ جب انسان اپنے دل میں اللہ کی عظمت کا احساس اجاگر کر لیتا ہے۔ سوچتا ہے کہ قدرت کی اس وسیع و بڑی کائنات میں وہ کتنی حقیر اور چھوٹی سی چیز ہے۔ جسے آخر موت کے بعد خاک میں ملنا ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں انسان کا احساسِ برتری، احساسِ عاجزی میں بدل جاتا ہے۔ معرفت ِ الٰہی انسان کو عاجزی وانکساری کا پیکر بناتی ہے۔ عاجزی و انکساری میں انسانی عظمت مضمر ہے۔ جبکہ تکبر و استکبار میں انسان کی تباہی و بربادی پوشیدہ ہے۔ عقلمند و دانا شخص ہی عاجزی کو اختیار کرتا ہے، اس لیے کہ برگ و بار اور پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہی زمین پر جھکی ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button