اعلیٰ ظرف

علیشبا بگٹی
یہ ظرف کس بلا کا نام ہے؟ کسی بندے میں ظرف کو کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے؟
ظرف کی دو اقسام ہیں۔ ایک اعلیٰ ظرف اور دوسرا کم ظرف۔ دُنیا کے تمام انسان ظرف کے کسی ایک قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ’’ اگر کسی پر احسان کرو، تو اُس کے شر سے بچو‘‘۔۔
ایک با ظرف انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہتا ہے۔ حضرت علیؓکے قول کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا اشارہ کم ظرف انسان کی جانب ہے۔ جس کے دامن میں زیادہ کچھ سمیٹنے کی جگہ نہیں ہوتی، اس کا احساسِ کمتری سرکشی کا روپ دھار کر اسے اُس ہستی کے مقابل لے آتا ہے کہ جس کے احسان تلے زیر بار ہوتا ہے۔
صلاح الدین ایوبی کا ایک حریف برطانیہ کا بادشاہ رچرڈ ’’شیردل‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ بڑا بہادر تھا اور بہادر ہی عموماً اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ رچرڈ شیر دل نے بھی اپنی بہادری کے باوجود اپنی بیماری اور اپنے ساتھیوں کے دبائو کے باعث صلاح الدین سے بدعہدی کی تھی اور اس کے باوجود سلطان مصر اس کی بیماری میں اپنے خاص اطبا اور دوائیں فراہم کرتا رہا۔
ٹیکسلا کو زیرنگیں کرنے کے بعد سکندر اعظم جب جہلم کی طرف روانہ ہوا تو اس کے حکمران راجہ پورس سے مڈ بھیڑ ہوگئی۔ مگر راجہ کی افواج اپنے ہی ہاتھیوں کی بھگدڑ سے شکست کھا گئی۔ پورس گرفتار ہو کر سکندر کے سامنے لایا گیا۔ تو سکندر نے اس سے پوچھا۔ بتا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ پورس کا پر اعتماد جواب آیا ’’ وہی سلوک جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں‘‘۔۔ سکندر اس جواب سے انتہائی مسرور ہوا۔ پورس کا جہلم واپس لوٹا دیا۔
ایک شخص نے ایک نیا مکان خریدا۔ اس میں پھلوں والا باغ بھی تھا۔ پڑوس کا مکان پرانا تھا اور اس میں بہت سے لوگ رہتے تھے۔ کچھ دن بعد اس نے دیکھا کہ پڑوس کے مکان سے کسی نے بالٹی بھر کوڑا، اس کے گھر کے دروازے پر ڈال دیا ہے۔ شام کو اس شخص نے ایک بالٹی لی، اس میں تازہ پھل رکھے اور اس گھر کے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ اس گھر کے لوگ بے چین ہو گئے اور وہ سوچنے لگے، کہ وہ ان سے صبح کے واقعہ کے لئے لڑنے آیا ہے۔ لہذا وہ پہلے ہی تیار ہو گئے۔ مگر جیسے ہی انہوں دروازہ کھولا، وہ حیران ہوگئے۔ رسیلی تازہ پھل کی بھری بالٹی کے ساتھ، چہرے پر مسکراہٹ لئے نیا پڑوسی سامنے کھڑا تھا۔ سب حیران تھے۔ اس نے کہا ’’ جو میرے پاس تھا، وہی میں آپ کے لیے لا سکا‘‘۔۔۔
سچ ہے جس کے پاس جو ہوتا ہے، وہی وہ دوسرے کو دے سکتا ہے۔ جس کے پاس ذرا بھی ظرف ہے تو وہ اپنے ظرف کے مطابق آپ کے ساتھ سلوک کرے گا۔
انسان کی زندگی میں اس کے کردار کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کا ظرف ہوتا ہے اور ظرف کا تعلق آدمی کے ضمیر سے ہوتا ہے۔ اور ضمیر سوچ سے بنتا ہے۔ انسان کی زندگی میں ظرف کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ انسان کو اس ظرف سے ہی پرکھا اور پہچانا جا تا ہے۔ جس کا ظرف جتنا اونچا اور اعلیٰ ہوگا وہ انسان اتنا ہی قابل احترام قیمتی بہادر اور باعزت ہوگا۔ دراصل ظرف ہی انسان کی عزت و آبرو کا بھرم رکھتا ہے۔ اس لئے وہ دوسروں کی نظروں میں قابل قدر بن جاتا ہے۔ انسان کی اعلیٰ ظرفی زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں اس کے بہت کام آتی ہے۔ اور اعلیٰ ظرفی سے ہی لوگ لوگوں کے دلوں میں عزت اور نمایاں مقام پاتے ہیں۔ ایک اعلیٰ ظرف انسان ہمیشہ اپنا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ کیونکہ کمی کا ہمیشہ احتمال رہتا ہے۔ اعلیٰ ظرف بننے کے لئے اعلی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کی غلطیوں سے درگزر ہی اعلیٰ ظرفی نہیں بلکہ اپنی غلطی پر جھک جانا بھی اعلیٰ ظرفی ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’ ظرف کا اصل امتحان تب ہوتا ہے جب آپ کے پاس طاقت ہو اور پھر بھی آپ معاف کر دیں‘‘۔
ظرف یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی سے بدلہ لینے کا حق اور اختیار حاصل ہو۔ پھر بھی وہ اسے بخش دے۔ اس ظرف کا مظاہرہ وہی کرتے ہیں جو بہت ہی مضبوط ذہن و اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ ظرف کی یہ دولت اکثر قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہے اور کچھ خاندانی تربیت، مطالعہ اور اچھے لوگوں کی سنگت سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے اچھے اخلاق اس کے اعلیٰ ظرف ہونے کی آئینہ دار ہیں۔ اعلیٰ ظرف لوگ امانت اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور اپنے اطراف مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے بآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ لوگ شہرت اور دولت پاتے ہی اپنے منصب کے معاشرتی پروٹوکول کی حفاظتی شیلڈ میں چھپ جاتے ہیں۔ اعلیٰ ظرف اپنی صلاحیتوں کا خراج وصول نہیں کرتے، وہ عام عوام کو دستیاب ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے پر بوجھ نہیں ہوتے بلکہ معاشرے کا بوجھ اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ اُن کی صلاحیتیں وقف ہوتی ہیں۔ اعلیٰ ظرف اپنے لیے کم سے کم تقاضا کرتا ہے۔ لیکن دوسروں کے تقاضوں پر پورا اترنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ اعلیٰ ظرف کھاتا نہیں بلکہ کھلاتا ہے۔ اعلیٰ ظرف ایک ایسی خصوصیت ہے جو انسان کو عظمت کی بلندی پر پہنچاتا ہے۔
اعلیٰ ظرف تعلقات کی دنیا میں بھی بڑا فراخ دل پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے متعلقین کی کوتاہیوں کو فراخ دلی سے نظر انداز کرتا ہے۔ لوگوں کو معاف کرنا اس کیلئے کبھی کارِ دُشوار نہیں ہوتا۔ اعلیٰ ظرف عالی ہمت ہوتا ہے۔ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا اُس کے لیے کبھی مشکل نہیں ہوتا۔ اگر ظرف وسیع ہو تو تعلقات کو کبھی بھی موت نہیں آتی۔
یہ میرا ظرف تھا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا
ورنہ لوگ سانپوں کو مار دیا کرتے ہیں
کہتے ہیں کہ کم ظرف دوست تو دوست، کم ظرف دشمن بھی خدا کسی دشمن کو نہ دے۔ کہتے ہیں کہ سانپ سے مت ڈرو بلکہ کم ظرف سے ڈرو۔ کیونکہ سانپ سر عام ڈستا ہے اور کم ظرف چھپ کے ڈستا ہے۔ انسان کی زندگی میں اس کے کردار سے ظرف ختم ہو جائے یا اس کا ضمیر مردہ ہوجائے تو ایسے انسان کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی۔ کم ظرف لوگ عزت و احسان اور دولت کا وزن نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
شعر ہے کہ
کم ظرف اگر دولت و زر پاتا ہے
مانند حباب ابھر کے اِتراتا ہے
کرتے ہیں ذرا سی بات پر فکر خسیس
تنکا تھوڑی ہوا سے اڑ جاتا ہے
بغض کینہ ضد حسد کم ظرفوں کی مصروفیت ہے۔ اعلیٰ ظرف بڑی خوبی سے برداشت کر جاتا ہے۔ اعلیٰ ظرف ہمیشہ تشکر کی حالت میں پایا جاتا ہے۔ وہ مخلوق کا شکریہ اور خالق کا شکر ادا کرنے میں کبھی بخیل نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کے پاس استحقاق اور استعداد سے کہیں بڑھ کر نعمتیں ہیں۔
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
دوسروں کو سیر کرنا اعلیٰ ظرفوں کا شیوہ ہے۔ ایک بڑا ظرف رکھنے والا شخص معاشرتی، اخلاقی، اور روحانی طور پر کامیاب ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں سکون اور اطمینان ہوتا ہے۔ اور وہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے ظرف کو بڑھانے کی کوشش کریں، کیونکہ بڑے ظرف والے لوگ ہی اصل میں بڑے انسان کہلانے کے لائق ہوتے ہیں۔ کم ظرف دراصل کم عقل اور بے ضمیر ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر نہ صرف انہیں اپنی عزت بنانی نہیں آتی بلکہ وہ موقع پرست ہوتے ہیں اور اپنے فائدے کیلئے اپنے محسن کو بھی دغا دینے سے باز نہیں آتے۔ کم ظرف انسان جب مفاد اور اخلاق کے دوراہے پر پہنچتا ہے تو یک لخت مال اور مفاد کے حق میں فیصلہ سنا دیتا ہے، جبکہ اعلیٰ ظرف اپنے مال و مفاد کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخلاقی تقاضا پورا کرتا ہے۔ موجودہ زمانے کے زیادہ تر مسائل مشکلات و پریشانیوں کی بڑی وجہ ہی کم ظرفی ہے۔
حالانکہ شاعر کہتا ہے کہ
جب بھی ضمیر و ظرف کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسین کے انکار کی طرح
چھوٹے ظرف کے لوگ چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ لوگ بے معنی بے فائدہ اور ادنیٰ سی باتوں کو بھی انا کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔
ظرف والے مرے حصے میں نہیں آئے کبھی
جو بھی آتا ہے وہ اوقات دکھا جاتا ہے
اور بڑے ظرف کے لوگ بڑی باتوں کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی سوچ اور ان کا دل بھی ان کے ظرف کی طرح بڑا ہوتا ہے
محسن نقوی کے اشعار ہیں کہ
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گی یہی وقت امتحان کا ہے۔
یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے
گلاس آدھا خالی ہے آدھا بھرا ہوا ہے۔ اب پوچھا جائے کہ گلاس میں کتنا پانی ہے؟ تو زیادہ تر لوگ کہیں گے آدھا خالی ہے اور بہت کم لوگ یہ کہیں گے کہ آدھا بھرا ہوا ہے۔ جس کا جتنا ظرف ہے اتنی اُس کی نگاہ ہے۔
شعر ہے کہ
اچھے نے اچھا، بد نے بد جانا مجھے
جس کا جتنا ظرف تھا، اتنا پہچانا مجھے
لفظ اگر نگاہ کے ترجمان ہیں تو انسان کے ظرف کے عکاس بھی۔ جس کا جتنا ظرف ہو وہ اُتنا ہی دیتا ہے یا وہی دے سکتا ہے جو اُس کے پاس ہو
میں نے تمہارے ظرف پہ چھوڑا ہے فیصلہ
خوشبو، ستارہ، پھول یا پتھر کہو مجھے
پیسوں سے ظرف نہیں خریدا جاسکتا۔ گھٹیا ہمیشہ گھٹیا ہی رہتا ہے۔ موت سے زیادہ تکلیف دِہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب کوئی صاحبِ ظرف کسی کم ظرف کا محتاج ہو جائے۔
وہ ظرف رکھتا تو جان لیتا
چپ رہنا بھی ایک شکایت ہے
ظرف والوں کی دُنیا الگ ہے، عداوت بھی ہوگی۔ تو معیار ہوگا۔ کانٹے کا کام زخم دینا اور پھول کا کام خوشبو دینا ہے۔ ہم سب اپنے ظرف کی حدود میں قید ہیں۔ کس کا رویہ کیسا ہے؟ یہ تو اپنے اپنی ظرف کی بات ہے۔







