گوئٹے کے الفاظ میں آمد محمدؐ

راجہ شاہد رشید
تاجدارکائنات حضرت محمدؐ کی تاریخ پیدائش پر تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اکابرین کی اکثریت ربیع الاول کو ہی ماہ ولادت محمدؐ بتلاتی ہے لہٰذا تمام اہلٍ قلم کے لیے یہ لازم و ملزوم ہے کہ وہ ویسے بھی اور بالخصوص ہر سال ماہِ ربیع الاول میں، عید میلاد النبیؐ کے دنوں میں یعنی سوہنے میلاد موسموں میں نعتؐ کے ضمن میں ضرور لکھیں ۔ میرے اپنے ہی ایک نعتیہ ست برگے کا ایک برگ ہے کہ
نفل نمازاں پٍچھے رہسن تے نسبت نال رہائی
حشر دیہاڑے بخشے جاسن جنہاں نال محمد لائی
ساقی کوثر، شافعیٍ محشر کا فرمان ذیشان ہے کہ ’ کوئی تمہیں گالی دے تو تم اسے دعا دو ، کوئی تمہیں بُرا کہے تو تم اسے اچھا کہو ، کوئی تم سے زیادتی بھی کرے تو اللہ کی رضا کے لیے تم اسے معاف کر دو۔ میں محمدؐ تمہیں ضمانت دیتا ہوں کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے جنت میں گھر لے کر دوں گا‘۔
یہ اخلاقی معیار اور آفاقی فکر ہے میرے مدنی پیشوا محمدؐ کی ۔ میرے نبیؐ امام الانبیائٌ ہیں، رحمت عالمؐ ہیں اور سارا عالم نعت خواں ہے سرکار مدینہ کا۔ مغربی مفکرین و محققین نے بھی سرکار محمدؐ کو سراہا ، دنیا بھر کے لکھنے والوں نے لکھے شان مصطفیٰؐ میں ترانے اور دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں نعت نذرانے۔ معروف جرمن شاعر گوئٹے نے بھی نعت رسول محمدؐ لکھی ۔ اس کے نام کا انسٹیٹیوٹ کلفٹن کراچی میں ہے، گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے نام سے جو جرمن سفارت خانے کی زیر نگرانی چلتا ہے۔ گوئٹے نے غیر مسلم ہو کر سچے نبی محمدؐ کے مقام کو سمجھا اور پھر اپنے اندر کی اس خوبصورتی کو اپنے قلم کے ذریعے بیان بھی کر ڈالا دنیا کی بہترین ہستی پر بہترین نعت لکھ کر نعت گوئی کا حق ادا کیا اور ڈاکٹر شان الحق حقی جی نے جرمن زبان میں لکھی گئی اس نعت شریف کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔ حقی صاحب نے اپنے بر محل اور دل نواز ترجمہ سے ترجمہ کا حق ادا کر دیا اور گوئٹے کا بھی۔ بہترین شخصیت، بہترین شاعر اور بفضل اللہ بہترین ترجمہ بھی جس میں بہت ہی خوبصورت الفاظ کا چنائو کیا گیا ہے ۔ ایک سر بلند و باکمال شاعر کی کمال نعت رسول کریم محمدؐ کا فصیح و بلیغ ترجمہ ہے، جس میں شان الحق کی حقی جی کے تخلیقی استغراق کی آمیزش بھی موجود ہے ماشاء اللہ ۔ شاعر جان وولف وین گوئٹے اور مترجم ڈاکٹر شان الحق حقی جی کا یہ بے مثال و لازوال کلام کمال ملاحظہ فرمائیے:
نغمہ محمدی وہ پاکیزہ چشمہ ، جو اُوج فلک سے چٹانوں پہ اترا، سحابوں سے اوپر بلند آسمانوں پہ جولاں ملائک کی چشم نگہداشت کے سائے سائے ، چٹانوں کی آغوش میں عہد برنائی تک جوئے جولاں بنا، چٹانوں سے نیچے اُترتے اُترتے ، وہ کتنے ہی صد رنگ ان گھڑ خزف ریزے ، آغوشٍ شفقت میں اپنی سمیٹے ، بہت سے سسکتے ہوئے رینگتے، سُست کم مایہ سوتوں کو ، چونکاتا ، للکارتا ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا ، بے نمو وادیاں لہلانے لگیں ، پھول ہی
پھول چاروں طرف کٍھل اُٹھے جس طرف اس کا رُخ پھر گیا، اس کے فیض قدم سے بہار آ گئی ، یہ چٹانوں کے پہلو کی چھوٹی سی وادی ہی کچھ منزل نہ تھی اُس کی ، وہ تو بڑھتا گیا ، کوئی وادی، کوئی دشت، کوئی چمن، گلستان، مرغزار اس کے پائے رواں کو نہ ٹھہرا سکا، اس کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے خشک نہریں بھی تھیں اُترے دریا بھی تھے، سیل جاں بخش کے، اس کے سب منتظر، جوق در جوق پاس اُس کے آنے لگے، شور آمد کا اُس کی اُٹھانے لگے، راہبر ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو، کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے، راہ گھیرے ہوئے پاں پکڑے ہوئے، یاد آتا ہے مسکن پرانا ہمیں، آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں، ورنہ یونہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے، جال میں ان زمینوں کے پھنس جائیں گے ، اپنے خالق کی آواز کانوں میں ہے، اپنی منزل وہیں آسمانوں میں ہے ، گردآلود ہیں پاک کر دے ہمیں ، آہنگ آغوش افلاک کر دے ہمیں ، وہ رواں ہے ، رواں ہے ، رواں اب بھی ہے، ساتھ ساتھ اس کے اک کارواں اب بھی ہے ۔ شہر آتے رہے شہر جاتے رہے ، اس کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے ، اس کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی َ، ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی ، قصر ابرا کے خواب ہوتے گئے ، کتنے منتظر تہہ آب ہوتے گئے ، شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں ، عظمتیں کتنی نایاب ہوتی گئیں ، اس کی رحمت کا دھارا ہے اب بھی رواں ، از زمیں تا فلک ، از فلک تا زمیں ، از ازل تا ابد جاوداں ، بیکراں ، دشت و در ، گلشن و گل سے ہے واسطہ ، فیض یاب اُس سے کل اور خود کل سے ہے واسطہ۔





