’بدقسمتی سے الیکشن کمیشن عام انتخابات میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا‘

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے سے متعلق اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 70 صفحات پر مشتمل یہ تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن رواں برس فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحریک انصاف سے پہلے درخواست دائر کیوں نہ کرائی گئی اور پہلے ہی ریلیف کیوں دے دیا گیا۔ فیصلے کے مطابق انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ فیصلے کے مطابق یہ عوام کے ووٹ کے حق کے تحفظ کا آئینی فریضہ تھا جو سپریم کورٹ نے ادا کیا ہے۔
واضح رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تفصیلی فیصلے میں ججز نے لکھا کہ انھوں نے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
فیصلے کے مطابق اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انھیں ووٹ دیا۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
’کمیشن کو جمہوری اصولوں اور انتخابی عمل کی سالمیت کو برقرار رکھنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انتخابات صحیح معنوں میں عوام کی مرضی کی عکاسی کریں، اس طرح قوم کے جمہوری تانے بانے کو محفوظ رکھا جائے۔ بدقسمتی سے اس معاملے کے حالات بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن 2024 کے عام انتخابات میں یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘
تفصیلی فیصلے میں آٹھ ججز نے دو ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔ دو ججز کے تحفظات کے حوالے سے فیصلے میں بتایا گیا کہ جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔







